#سوال مگ
Explore tagged Tumblr posts
soalmag · 1 month ago
Link
کی ال دی بهتره یا اچ ال ایکس: انتخاب بین موتورسیکلت‌های کی ال دی (KLD) و اچ ال ایکس (HLX) یکی از دغدغه‌های رایج موتورسواران مبتدی و حرفه‌ای است. هر دو برند در بازار ایران طرفداران خاص خود را دارند و هر کدام ویژگی‌ها و مزایای منحصر به فردی را ارائه می‌دهند. در این مقاله، به صورت جامع به مقایسه این دو برند پرداخته و به شما کمک می‌کنیم تا بهترین انتخاب را بر اساس نیازها و بودجه خود داشته باشید.
0 notes
pakistanmilitarypower · 1 year ago
Text
ایف 16 پاکستان سمیت دنیا بھر کی فضائی افواج میں آج بھی اتنا مقبول کیوں ہے؟
Tumblr media
F-16 لڑاکا طیارے نے اپنی پہلی پرواز سنہ 1974 میں بھری تھی، اور آج 50 سال گزرنے کے باوجود یہ لڑاکا طیارہ مختلف ممالک کی افواج کے لیے اُتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 50 سال پہلے تھا۔ اور اگر پچاس برس پہلے اس لڑاکا طیارے کی آزمائشی پرواز کے دوران اگر پائلٹ حاضر دماغی کا مظاہرہ نہ کرتا تو ایف 16 پروگرام شاید کبھی آگے نہ بڑھ پاتا۔ جب پائلٹ فل اوسٹریکر 20 جنوری 1974 کو کیلیفورنیا میں ایڈورڈز ایئر فورس بیس میں جنرل ڈائنامکس ’وائی ایف -16‘ پروٹو ٹائپ کے کاک پٹ میں بیٹھے تو اُن کا مشن نسبتاً سادہ تھا، یعنی ایک تیز رفتار ٹیکسی ٹیسٹ جس کے تحت طیارے کو اپنے انجن کی طاقت کے تحت زمین پر آگے بڑھنا تھا وائی ایف 16 کو صرف ایک ماہ قبل ہی عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس کی پہلی پرواز فروری 1974 کے اوائل تک نہیں ہوئی تھی۔ لیکن مستقبل کے اس معروف لڑاکا طیارے کو لے کر کچھ اور ہی عزائم تھے۔ جیسے ہی پائلٹ اوسٹریکر نے طیارے کی ناک کو زمین سے تھوڑا سا اوپر اٹھایا، تو وائی ایف-16 نے اتنی تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا کہ طیارے کا لیفٹ ونگ اور دائیں ٹیل ٹارمیک سے ٹکرا گئے۔ ’سیئٹل پوسٹ انٹیلیجنس‘ نے اس پرواز کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ جیسے جیسے پائلٹ اوسٹریکر کو طیارے پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو رہا تھا اور طیارہ بائیں جانب سلپ ہونے گا تو پائلٹ کو احساس ہوا کہ انھیں اس آزمائشی ٹیسٹ کے طے شدہ حدود و قیود سے باہر نکلنا پڑے گا اور طیارے کے گرنے سے پہلے اسے اڑانا ہو گا۔
کچھ دل دہلا دینے والے لمحات کے بعد پائلٹ اوسٹریکر نے اتنی رفتار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ پروٹو ٹائپ ہوا میں جا سکے اور اڈے پر واپس اترنے سے پہلے ڈرامائی طور پر چھ منٹ طویل پرواز مکمل کر سکے۔ اپنی مہارت کی وجہ سے پائلٹ اوسٹریکر نے ایک ایسے طیارے کو زندہ کرنے میں مدد کی تھی جو انسانی یادداشت میں سب سے کامیاب طیاروں میں سے ایک بن گیا ہے۔ گذشتہ 50 برسوں کے دوران 4600 سے زائد ایف 16 طیارے فیکٹری سے تیار ہو کر محو پرواز ہو چکے ہیں اس لڑاکا طیارے کی پیدوار فی الحال رکنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اگر پائلٹ اوسٹریک اپنے پہلے ٹیکسی ٹیسٹ میں وائی ایف -16 کو گرنے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دنیا کی بہت سی فضائی افواج میں شاید ایف -16 کی شکل میں کسی لڑاکا طیارے کی بڑی کمی ہوتی۔ اس طیارے کے ڈیزائن نے سول ایوی ایشن پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں، مثال کے طور پر مسافر ایئر لائنز میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہو چکا ہے جسے سب سے پہلے ایف سولہ طیارے میں استعمال کیا گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی ایف 16 طیارہ دن کے کسی بھی وقت، دنیا کے کسی حصے میں محوِ پرواز ہو۔
سنہ 1978 میں امریکی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ایف -16 کو ناروے سے چلی اور مراکش سے سنگاپور تک دنیا کی 25 دیگر فضائی افواج نے اڑایا ہے۔ ایک چھوٹے، ہلکے اور انتہائی تیز رفتار ڈاگ فائٹر کے طور پر ڈیزائن کیے گئے ایف-16 نے زمینی حملے سے لے کر اینٹی شپنگ اور فوٹو جاسوسی سے لے کر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل لانچرز کو تباہ کرنے کے کردار نبھائے ہیں۔ سنہ 2015 کے بعد سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ فوجی فکسڈ ونگ طیارہ رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دو ہزار سے زیادہ ایف 16 طیارے آج بھی عالمی سطح پر فعال ہیں۔ روس کے حملے کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے جو فوجی امداد مانگی تھی اس میں جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایف 16 طیارے دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یوکرین کے پائلٹ اس وقت ڈنمارک میں ایف 16 طیاروں کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور موسم گرما میں یوکرین کو ان طیاروں کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ رواں برس جنوری کے اوائل میں سلوواکیہ ایف-16 طیارے حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔
Tumblr media
پانچ دہائیوں تک کسی فرنٹ لائن لڑاکا طیارے کو سروس میں رکھنا کوئی م��مولی کارنامہ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں فضائی افواج کو اب بھی ایف 16 طیارے کیوں چاہییں؟ شاید اس کی وجہ اس کے ڈیزائن سے متعلق کچھ حقیقی اختراعی پہلو اور ویتنام جنگ میں فضائی لڑائی سے سیکھے گئے کچھ سخت سبق ہیں۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکہ نے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کی نئی ٹیکنالوجی کو دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے بہترین ہتھیار کے طور پر اپنایا تھا۔ جب 1965 میں ویتنام کی جنگ شروع ہوئی تو اس کے کچھ فرنٹ لائن لڑاکا طیارے جیسے ایف -4 فینٹم 2، کے پاس گنیں نہیں تھیں۔ امریکی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ طیارے کے میزائل کافی ہوں گے۔ تاہم، میزائلوں سے لیس امریکی لڑاکا طیارے ویتنام میں جنگ بڑھنے کے ساتھ ہی چھوٹے اور چاق و چوبند اور سوویت ساختہ مگ لڑاکا طیاروں کا مقابلہ کرنے لگے۔ شمالی ویتنام کے کچھ مگ طیارے تقریباً سوویت طیاروں سے ملتے جلتے تھے جو 1950 کی دہائی کے اوائل میں جزیرہ نما کوریا ��ر لڑے تھے، اور اب مغرب میں انھیں تقریباً متروک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، قریبی یا دوبدو لڑائی میں، جہاں امریکی لڑاکا اپنے میزائلوں کو استعمال میں نہیں لا سکتے تھے، وہ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔
سنہ 1965 اور 1968 کے درمیان، امریکی جنگی طیاروں نے شمالی ویتنام کے طیاروں کو کہیں زیادہ مار گرایا، لیکن یہ فرق ڈرامائی طور پر کم ہو گیا۔ چھوٹے اور سنگل انجن والے مگ طیاروں کے مقابلے میں بڑے اور دو انجن والے امریکی لڑاکا طیاروں کو دور سے تلاش کرنا آسان تھا۔ اس کا ایک حل یہ تھا کہ امریکی بحریہ کے ’ٹاپ گن‘ جیسے تربیتی سکول قائم کیے جائیں، جس نے امریکی ہوابازوں کو ڈاگ فائٹ کا کھویا ہوا فن سکھایا۔ یہ ویتنام جنگ کے اختتام سے پہلے عمل میں آیا۔ ڈاگ فائٹ پہلی عالمی جنگ میں شروع ہوئی تھی جب چھوٹے ہوائی جہازوں کی رفتار ایک کار جیسی تھی لیکن اب کئی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جیٹ طیاروں میں اسی طرح کی لڑائی ایک بالکل مختلف تجربہ ہے۔ تیز رفتاری کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ دیر تک سخت موڑ میں کشش ثقل کی قوتوں یا جی فورس کے تابع ہیں۔ لیکن امریکہ میں سوویت طیاروں کا مقابلہ کے لیے ایک اور پروگرام ترتیب دیا گیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر میں سوویت مگ 25 کے ابھرنے سے امریکی دفاعی سربراہان پہلے ہی پریشان تھے، جو ایک بڑا لڑاکا طیارہ تھا جو آواز کی رفتار سے تین گنا زیادہ رفتار سے پرواز کر سکتا تھا۔
پینٹاگون کی جانب سے مگ-25 کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور انٹرسیپٹر کے مطالبے کے نتیجے میں میکڈونیل ڈگلس ایف-15 ایگل تیار کیا گیا، جو ایک بڑا اور تیز رفتار انٹرسیپٹر ہے جو ریڈار گائیڈڈ میزائلوں سے انتہائی اونچائی پر دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ویتنام جنگ سے امریکہ نے جو سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ اسے ایک ایسے چھوٹے چاق و چوبند طیارے کی ضرورت ہے جو دشمن کے طیاروں کو ہیٹ سیکنگ میزائلوں اور بندوقوں سے مار گرا سکے آنے والے دنوں میں امریکی ایئرفورس کو ایسے سینکڑوں جنگی طیاروں کی ضرورت ہونی تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نیٹو ممالک اور دوسری امریکی اتحادی بھی اس کی پیروی کریں گے۔ اس منافع بخش منصوبے کے لیے پانچ ڈیزائن دوڑ میں شامل ہو گئے، جن میں سے دو جلد ہی سب سے آگے نکل گئے جن میں جنرل ڈائنامکس (اب لاک ہیڈ مارٹن کا حصہ) سے وائی ایف -16 اور حریف نارتھروپ سے وائی ایف -17۔ وائی ایف -16 کو سب سے پہلے ڈاگ فائٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس کے تحت اس کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں اور کاک پٹ کو ایسے بنایا گیا جو پائلٹ کو بہتر نظارہ مہیا کرتا ہے۔ اس کا کاک پٹ بالکل ابتدائی جیٹ لڑاکا طیاروں جییسا ڈیزائن کیا گیا تھا۔
برطانیہ میں رائل ایروناٹیکل سوسائٹی میں ملٹری ایوی ایشن کے ماہر ٹم رابنسن کا کہنا ہے کہ ’کم از کم ’فائٹر مافیا‘ کا ایک حصہ جو اسے آگے بڑھا رہا تھا وہ کوریا اور ایف-86 سیبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کسی ایسی چیز کو دیکھ رہے تھے جو واقعی قابل عمل تھی اور ببل چھتری کے ساتھ پائلٹ کے لیے واقعی بہت اچھا نظارہ رکھتی تھی۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ایک یہ خیال پیش کیا گیا کہ ریڈار کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد انفراریڈ کی تلاش کرنے والے دو میزائل اور ایک گن رکھنا ہے اور انھیں ان چیزوں کو ختم کرنا پڑے گا۔ وہ سوویت طیاروں کی تعداد کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے: ’خدا، ہمیں ان میں سے بہت سے کی ضرورت ہو گی، ہمیں ان میں سے بہت سے بنانے ہوں گے۔‘ نئے جیٹ کو ایف -15 کی طویل رینج کی ضرورت نہیں تھی چنانچہ یہ بہت چھوٹا اور ہلکا ہو سکتا تھا اور ایف -15 کے دو انجنوں کے برعکس اسے ایک انجن کی ضرورت ہو گی۔ کم وزن اور طاقتور انجن کا یہ امتزاج ایک اعلی ’تھرسٹ ٹو ویٹ تناسب‘ پیدا کرتا ہے، جس نے نہ صرف تیز رفتار کو قابل بنایا بلکہ تیزی سے موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جو ڈاگ فائٹ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
ایف -16 کو ڈاگ فائٹ میں 9 جی تک برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا (جس کا مطلب ہے کہ زمین پر 1 کلو گرام وزن اچانک 9 کلو گرام ہو گا)۔ ہائی جی پر پرواز کرنے سے ایئر فریم اور پائلٹ دونوں پر بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ ہائی جی موڑ میں پائلٹ کو ہوش میں رکھنے میں مدد کے لیے، ایف 16 میں کاک پٹ سیٹ کو دوبارہ موڑ دیا جاتا ہے جس سے پائلٹ پر کچھ اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جیف بولٹن ایوی ایشن جرنلسٹ اور براڈکاسٹر ہیں جنھوں نے دو بار ایف 16 کے دو نشستوں والے ورژن میں پرواز کی ہے، جو پائلٹ کی تربیت اور خصوصی مشن دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے جن لڑاکا طیاروں میں پرواز کی ہے ان میں ایف 16 ایسا طیارہ ہے جو ایک دستانے کی طرح آپ کے گرد لپٹ جاتا ہے۔‘ ’میں قد تقریباً 6 فٹ 4 انچ ہے، لہذا یہ میرے لیے ایک تنگ جگہ ہے، لیکن میں پھر بھی اپنی نشست کو نیچے کر سکتا تھا اور میں اپنا ہاتھ اپنے ہیلمٹ اور چھتری کے درمیان رکھ سکتا تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ نے طیارے کو ’پہن‘ رکھا ہے۔‘
آنے والے دنوں میں ایف 16 کا کاک پٹ کا ڈیزائن صرف ایک لیٹی ہوئی نشست اور ایک اچھے نظارے سے کہیں آگے گیا۔ طیارے کے ڈیزائنرز نے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لڑاکا طیاروں کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک کو ختم کر دیا، یعنی پائلٹ کی ٹانگوں کے درمیان ایک کنٹرول سٹک کی بجائے ایف -16 میں کاک پٹ کے دائیں طرف جوائے سٹک طرز کا کنٹرولر تھا، بالکل اسی طرح جیسے آپ کمپیوٹر گیم ’فلائٹ سمولیٹر‘ میں استعمال کرتے ہیں۔ ایف 16 کو اصل میں کم اونچائی پر ایف 15 کی مدد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن جلد ہی یہ پتہ چلا کہ ایف 16 کے ایئر فریم نے اسے بھاری بوجھ، زیادہ ایندھن اور ایک بڑا ریڈار لے جانے کی اجازت دی۔ اکیسویں صدی میں ایف 16 طیارے زمینی حملے کے طیارے کے طور پر اہم ہو گئے ہیں جس کے بارے اس کے ڈیزائن کرنے والوں نے 1970 کی دہائی میں سوچا نہیں تھا۔ ایف سولہ کے ڈیزائن نے اسے زیادہ سے زیادہ کردار نبھانے کے قابل بنایا ہے جس نے اسے فضائی افواج کے لیے انتہائی پرکشش بنا دیا رابنسن کا کہنا ہے کہ ’جہاں کوئی تنازع ہے، وہاں شاید ایف 16 طیارے بھی ہوں گے۔‘
رابنسن کا کہنا ہے کہ ایف 16 کا پہلا عرفی نام ’فائٹنگ فالکن‘ تھا، لیکن یہ نام اس پر کبھی جما نہیں ہے۔ ’اب اسے (عرفی نام) کوئی بھی استعمال نہیں کرتا ہے۔ زمین پر کھڑے ایف 16 طیارے بہت ہی ’فیوچرسٹک‘ (یعنی مستقبل کی شے) لگتے ہیں لیکن فضا میں اس حقیقت کا آپ پر انکشاف بھی ہوتا ہے۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو پائلٹوں کو ان کی جسمانی حدود سے باہر دھکیل سکتا تھا نہ صرف اس لیے کہ یہ 9 جی تھا بلکہ یہ بھی کہ یہ کتنی تیزی سے آئے گا۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ ’جب میں پہلی بار ایف سولہ میں سوار ہوا تو انسٹرکٹر نے مجھ سے کہا کہ ’ٹھیک ہے، اب یہ طیارہ آپ کا ہوا۔‘ پائلٹ نے بولٹن کو مشورہ دیا کہ ’یہ بہت حساس ہے۔ تو بس اس بات کو ذہن میں رکھو کہ ایف 16 کی کنٹرول سٹک پر زیادہ طاقت نہ لگائی جائے۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کا آغاز ایلرون رول سے کیا تھا، جہاں طیارہ اونچائی کھوئے بغیر 360 ڈگری تک گھوم جاتا ہے۔ ’تو میں نے جب اسے انجام دیا، تو انسٹرکٹر نے میری طرف دیکھا اور کہا ’یار، یہ بہت اچھا تھا۔‘ انسٹرکٹر نے کہا کہ نئے پائلٹ پہلے ایف 16 کے کنٹرولر پر بہت زیادہ طاقت لگاتے تھے۔ بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ اس قدر ریسوپانسو ہے کہ ’یہ انسٹرکٹرز کا سر کنوپی کے اطراف سے ٹکراتا ہے۔‘
بولٹن اس سے قبل ایف 5 جیسے امریکی طیاروں میں پرواز کر چکے ہیں، جو ایک طویل عرصے تک ٹاپ گن مشقوں میں سوویت جیٹ طیاروں کا کردار ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ واٹرز اپنے ایف 16 فلائنگ کیریئر کے اختتام پر ایئر شوز میں نمائشی اور ایروبیٹگ پروازیں کرتے رہے ہیں۔ انھیں آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے پہلی بار ایف 16 کے کاک پٹ میں کب قدم رکھا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ جولائی میں فینکس میں تھا اور درجہ حرات 48 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ’بہت زیادہ گرمی، جیٹ کا شور اور پھر آپ ایک ایسے طیارے میں چھلانگ لگا رہے ہیں جسے آپ نے چند بار کنٹرولڈ اور آرام دہ ماحول میں سمولیٹر میں چلایا ہے۔‘ واٹرز کا کہنا ہے کہ تقریباً 5,000 فٹ کی بلندی پر انھوں نے اپنا ماسک گرایا اور وہ پہلی بار ایف 16 اڑانے کی گرمی اور جوش و خروش کے باعث پسینے سے بھیگ گئے تھے۔ ’میں نے اس لمحے سے لطف اندوز ہونے کے لیے صرف ایک منٹ لیا��یہ ایک بہت ہی ناقابل یقین سنسنی تھی۔ اور اس وقت تک کی سب سے طاقتور چیز جو میں نے اڑائی تھی۔‘
واٹرز کا کہنا ہے کہ ایف-16 کو اڑانے کا واحد مشکل حصہ اسے اتارنا یا لینڈنگ کروانا ہے۔ ’اسے اچھی طرح سے اتارنا کچھ آسان نہیں ہے کیونکہ یہ طیارہ ہمیشہ محو پرواز رہنا چاہتا ہے! آپ دیکھتے ہیں کہ ایف 16 وہ کام کرتے ہیں جسے ہم 'ببل' یا 'باؤنس' کہتے ہیں۔ آپ روایتی طور پر اسے روک نہیں سکتے، فلائی بائی وائر نہیں چاہتا کہ آپ ایسا کریں، وہ اسے اڑتا رہنا چاہتا ہے۔‘ واٹرز نے 2019 میں ایف 16 کو اڑانا چھوڑ دیا تھا۔ ’میں اب بھی اسے یاد کرتا ہوں۔ ایف 16 پر سٹریپنگ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ٹیلی فون کے کھمبے کے آخری حصے پر بیٹھے ہیں اور آپ کی پیٹھ پر راکٹ موٹر لگی ہوئی ہے۔‘ تاہم اب ایف 16 کی جگہ امریکہ اور نیٹو کی کچھ فضائی افواج میں لاک ہیڈ ساختہ لڑاکا طیارے ایف 35 کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ہر ایف 35 کی قیمت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے اور اسے دشمن کے طیاروں کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایڈ-آن کے بغیر ایف-16 کی قیمت ایف 35 کی قیمت کا صرف ایک تہائی ہو سکتی ہے۔ وہ 2056 میں ہو گا جب ایف 35 کی پہلی پرواز کے 50 سال مکمل ہوں گے مگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس وقت بھی ایف 16 طیارے کہیں نہ کہیں پرواز کر رہے ہوں گے۔
سٹیفن ڈولنگ عہدہ,بی بی سی فیوچر
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
aliewblog · 1 year ago
Text
سس فلافل با پودر انبه؛ تجربه طعم واقعی و لذیذ فلافل
برای تهیه سس فلافل با پودر انبه به چه موادی نیاز داریم؟
طرز تهیه سس فلافل با پودر انبه
۱- چگونه می‌توان از گلوله شدن سس فلافل در این دستور تهیه جلوگیری کرد؟
۲- چقدر زمان برای آنکه سس فلافل با پودر انبه به غلظت کافی برسد، لازم است؟
فلافل یکی از محبوب‌ترین انواع غذاهای عربی است. غذایی که جز دسته غذاهای ساده و بسیار سریع بوده و می‌توان آن را به عنوان یک نهار و یا شام خوشمزه و یا حتی یکی از بهترین غذاهای مدرسه کودکان سرو و نوش جان کرد. فلافل از آن دسته غذاهایی است که می‌توان آن را به طرق مختلفی همچون  استفاده از سس‌های متنوع و یا ادویه‌های گوناگون طعم دار کرد. در این مقاله قصد داریم درباره طرز تهیه سس فلافل با پودر انبه به عنوان یکی از خوشمزه‌ترین سس‌ها برای مزه دادن به این غذای محبوب و پرطرفدار عربی صحبت کنیم. برای خرید پودر انبه و خرید پودر انبه عمده، بهتر است به فروشگاه‌های معتبر مراجعه شود.
برای تهیه سس فلافل با پودر انبه به چه موادی نیاز داریم؟
مواد غذایی مورد نیازمقدار مورد نیازپودر انبه۱ قاشق سوپ خوریآب½ پیمانهنمکبه مقدار کافیفلفل (قرمز)¼ قاشق چای خوریسرکه سفید۳/۲ پیمانه
برای پیدا کردن پاسخ دقیق این سوال، جدول بالا برای شما آورده شده است. دقت ��اشته باشید که استفاده از فلفل قرمز در این رسپی تهیه سس فلافل کاملا اختیاری بوده و هیچ الزامی برای استفاده از آن وجود ندارد.
طرز تهیه سس فلافل با پودر انبه
در ادامه به صورت مرحله به مرحله طرز تهیه این سس بسیار خوشمزه آموزش داده شده است:
ترکیب کردن سرکه و آب با یکدیگر و اضافه کردن پودر انبه به آن‌ها
اضافه کردن نمک و فلفل قرمز به مواد و قرار دادن آن‌ها بر روی حرارت ملایم تا به جوش آمدن مواد سس ( هم زدن مواد در طول پروسه به جوش آمدن سس را فراموش نکنید.)
بعد از گذشت چند دقیقه، سس به غلظت مد نظر رسیده و می‌توانید حرارت زیر آن را خاموش کنید. آیا شما هم از طرفداران انبه هستید و مدام به دنبال پیدا کردن این سوال هستید که با انبه چی درست کنیم؟ خواندن مقالاتی همچون طرز تهیه انواع ترشی انبه در اسنپ اکسپرس مگ را از دست ندهید. در نهایت نیز تجربه خود را درباره استفاده از رسپی‌های آموزش داده شده در این مقالات با خوانندگان این مجله اینترنتی به اشتراک بگذارید.
جمع بندی
در روزهای پر مشغله و پر از استرس، اسنپ اکسپرس هر جا و هر ساعت از شبانه روز در کنار شماست تا با تحویل فوری و به موقع سفارشات شما ( کمتر از ۳۰ دقیقه) به شما در بهتر مدیریت کردن زمانتان کمک کند. سیستم آنلاین تحویل سفارشی که با ارائه خدماتی همچون تحویل سریع و فوری سفارشات، پشتیبانی ۲۴ ساعته، فراهم آوری امکانی برای مقایسه قیمت کالاها و …. به دنبال ایجاد احساس رضایت نسبت به خرید در کاربران خود است.
سوالات متداول
۱- چگونه می‌توان از گلوله شدن سس فلافل در این دستور تهیه جلوگیری کرد؟
برای جلوگیری کردن از گلوله شدن این سس فلافل باید که در مرحله اول، پودر انبه را کم کم به ترکیب آب و سرکه سفید اضافه کنید و مخلوط به دست آمده را خوب هم بزنید. علت چنین مسئله‌ای نیز آن است که بعد از حرارت دیدن سس، امکانی برای هم زدن و حل کردن پودر انبه داخل سس وجود ندارد. مسئله‌ای که می‌تواند باعث گلوله شدن سس شود.
۲- چقدر زمان برای آنکه سس فلافل با پودر انبه به غلظت کافی برسد، لازم است؟
در پاسخ به این سوال باید کفت که ۱۰ دقیقه زمان کافی است تا مواد سس که آن‌ها را بر روی حرارت ملایم قرار داده‌اید به غلظت کافی برسند.
منبع:
https://mag.snapp.express/falafel-mango-sausage/
0 notes
cuteskin-ir · 2 years ago
Text
راهنمای استفاده از کرم آبرسان پوست + پاسخ سوالات متداول
درخشندگی و صاف‌بودن یکی از نشانه‌های پوست سالم است. راه حل داشتن چنین پوستی استفاده از کرم‌های آبرسان و قراردادن مصرف آنها در روند روتین روزانه پوستیتان است. زندگی و حضور در شهرهای آلوده صنعتی، آلودگی‌های طولانی مدت هوا، خواب ناکافی و تغذیه نادرست علاوه بر فراموش کردن کار ساده‌ای مانند آب خوردن، همگی از مواردی است که رنگ و حال پوست صورت را تحت تاثیر قرار می‌دهد.  بنابراین استفاده از انواع کرم‌ها و تقویت کننده‌های بیرونی تا زمانی که فرصتی برای رسیدگی به امور سلامتی خودتان ندا��ته باشید، به تنهایی مفید نخواهند بود.این مطلب را تا انتها بخوانید.  علاوه بر این، در این مقاله شما را با  اشتباهات رایج در مصرف ابرسان آشنا خواهیم کرد.با کیوت مگ همراه باشید.
Tumblr media
راهنمای استفاده از کرم آبرسان پوست
شاید برایتان جالب است که بدانید ۳۰ درصد پوست از چربی و آب تشکیل شده است. با وجود این اگر پوست مقادیر زیاد چربی و رطوبت خود را از دست بدهد، خشک می‌شود و شادابی خود را از دست می‌دهد. بنابراین استفاده از محصولاتی که موجب حفظ رطوبت پوست می‌شود، لازم و ضروری است.وظیفه کرم‌های آبرسان در مرحله اول این است که موجب تقویت پوست می‌شوند. در مراحل بعدتر، محصولات آبرسان به دلیل تحریک بافت‌های کلاژن ساز پوست از ایجاد چین و چروک پوست و پیری زودرس آن جلوگیری می‌کنند.
اصلی‌ترین کارکرد آبرسان پوست حفظ رطوبت موجود در پوست شماست. این کرم‌ها با ایجاد لایه‌ای بسیار نازک روی پوست صورت و بدن شما مانع از تبخیر رطوبت موجود می‌شوند. به دلیل اینکه پوست به دلایل مختلف مانند نوع پوست، سن، اقلیم جغرافیایی که در آن زندگی می‌کنید و… نمی‌تواند به راحتی رطوبت خود را حفظ کند نیاز است که با کمک گرفتن از انواع کرم‌های آبرسان -که وظیفه آبرسانی عمقی به پوست را دارا هستند- این کار را انجام دهید.
کرم آبرسان چیست و چه کمکی به پوست شما می‌کند؟
علاوه بر استفاده از کرم‌های آبرسان و رطوبت‌رسان، برای داشتن پوستی سالم و درخشان می‌بایست با نوشیدن روزانه حداقل 6 لیوان آب و اهمیت دادن به تغذیه روزانه �� دوری از انواع دخانیات به پوستتان رسیدگی کنید.کرم‌ها آبرسان با ترکیباتی که دارند به جذب هرچه بهتر رطوبت به لایه‌های زیرین پوست کمک کرده و پوستی شفاف و زیبا برای شما به ارمغان می‌آوردند.  حال که پاسخ پرسش کرم آبرسان چیست؟ را دادیم لازم است به این نکته اشاره کنیم که برای استفاده از این کرم‌ها زمان مشخصی تعیین نشده، اما اگر از برندهای مناسب و باکیفیت استفاده کنید قطعا اثرگذاری بیشتری دارند.
روزی چند بار از کرم آبرسان استفاده کنیم؟
همانطور که می‌دانید استفاده از آبرسان‌ها در روتین پوستی برای داشتن پوستی سالم و شفاف ضروری است. اما ممکن است در راهنمای استفاده از کرم آبرسان پوست این سوال پیش بیاید که در طول روز چندبار از این محصول پوستی استفاده می‌شود. پیشنهاد ما این است که بعد از هر بار شستشوی صورت از آبرسان مخصوص نوع پوست خود استفاده کنید. در واقع با توجه به نیاز پوستی خود به طور معمول حداقل دو بار در روز، صبح و شب باید از مرطوب‌کننده‌ها و یا کرم‌های آبرسان‌ استفاده کنید. به این ترتیب می‌توانید رطوبت مورد نیاز پوست خود را تامین و از خشک شدن آن جلوگیری کنید.
بهترین زمان استفاده از کرم آبرسان
در راهنمای استفاده از کرم آبرسان پوست مناسب‌ترین زمان برای استفاده از کرم‌های آبرسان در اوقاتی است که فرد صورت خود را بوسیله‌ی مواد شوینده و اسکراب شسته است و تمامی چربی‌ها و آلودگی‌ها از سطح پوست زدوده شده‌اند. در این حالت پوست حداکثر میزان آمادگی را برای جذب ویتامین‌ها دارد. بهتر است که از مواد شوینده‌ای که دارای ویتامین‌ E و ویتامین C می‌باشند، استفاده نمود. وقت دیگری که برای استفاده از این نوع کرم‌ها مناسب است، صبح‌ها و هنگامی‌ است که از خواب بیدار می‌شوید.
اگر قصد دارید که شب‌ها و قبل از خواب از آبرسان‌ها استفاده کنید، بهتر است نخست صورت خود را شست و شو دهید. اگر دارای پوستی از نوع حساس می‌باشید، انتخاب مناسب‌تر استفاده از کرم‌های شبانه می‌باشد. کرم‌های آبرسان روزانه قوی‌تر هستند زیرا جدا از بحث کمک به زیباسازی و ترمیم پوست، باید دارای ویژگی مقاومت در برابر نور خورشید و انواع آلودگی‌های محیطی باشند. کرم‌های آبرسان شبانه  نیز بدلیل نیاز پوست صورت و گردن به تنفس، بصورتی ضعیف تولید می‌گردند.
عمیق‌تر شدن چروک‌های پوستی همچنین زمانی که آرایش به خوبی روی صورتتان نمی‌نشیند هم نشانه‌های از کاهش رطوبت پوست هستند. معمولا با افزایش جوش و آکنه افراد استفاده از محصولات مراقبتی را قطع می‌کنند، این در حالی است که پوست به شما نشان می‌دهد به رطوبت و مراقبت بیشتری نیاز دارد. در این مواقع به هیچ عنوان استفاده از آبرسان‌های پوست را قطع نکنید.
آیا آبرسان باعث تیرگی پوست می‌شود؟
اگر آبرسان خوب و باکیفیتی تهیه کرده باشید که دقیقا مطابق نیاز پوست شما طراحی شده، محال است چنین اتفاقی در اثر استفاده از آبرسان پوست رخ دهد. از طرفی در پاسخ به این سوال که آیا کرم آبرسان پوست را روشن میکند یا نه، باید گفت بله! آبرسانی به پوست باعث شفافیت پوست شما شده و همین مورد تیرگی و لک‌های آن را به مرور زمان محو می‌کند. البته تمام این موارد در گروی آن است که آبرسان درستی را انتخاب و نحوه استفاده از ابرسان را بیاموزید.
کرم آبرسان برای پوست خشک
افرادی که دارای پوست خشک هستند معمولا از خشکی و کشیدگی، خارش و پوسته شدن پوستشان شاکی هستند. به دلیل اینکه پوست خشک استعداد بیشتری در چروک‌شدن دارد بایستی مراقبت بیشتری از آن صورت بگیرد و با استفاده از انواع کرم‌های مرطوب کننده و آبرسان به آن کمک شود. علاوه بر آن فراموش نکنید که دخانیات خصوصاً سیگار به دلیل از بین بردن حجم ویتامین A موجود در بدن یکی از عوامل خشکی زودرس پوست و ایجاد چین و چروک است.
آیا آبرسان باعث جوش می‌شود؟
در واقع کسانی که پوست چربی دارند، معمولا از محصولات مناسب پوست چرب هم استفاده می‌کنند. گاه این محصولات چربی طبیعی پوست را کم می‌کنند. بنابراین در این حالت استفاده از آبرسان پوست، قبل از آن که پوست‌تان شروع به تولید سبوم بیش از حد کند، ضروری است.
به همین دلیل استفاده از آبرسان پوست برای کسانی که پوست چربی دارند، اهمیت بیشتری دارد.استفاده از آبرسان پوست سرعت تولید چربی را در پوست شما کم می‌کند و در نتیجه دیگر جوش نمی‌زنید؛  البته به شرطی که آبرسان مناسبی برای پوست‌تان انتخاب کرده باشید. قبل از آن که به طرز استفاده از کرم آبرسان بپردازیم، راهنمایی‌تان می‌کنیم که چه آبرسانی مناسب پوست شماست.
پوست‎تان براق نیست؟
یکی از دلایلی که پوست‌تان به اندازه معمول همیشه‌تان درخشندگی ندارد، این است که به اندازه کافی هیدراته نیست. وقتی پوست رطوبت کافی نداشته باشد، ممکن است کمی مات و کسل‌تر از همیشه به نظر برسد. استفاده از آبرسان پوست می‌تواند پوست‌تان را به وضعیت هیدراته و درخشان برگرداند.
منبع: کیوت مگ
0 notes
rezvannet · 3 years ago
Photo
Tumblr media
🌺 نوروزتان پیروز 🌺 نوبهار (سرویس نوروزی فن آوا) . ✔️ سرعت 16 مگ ، زمان 3ماه ّ حجم 1401 گیگ داخلی معادل 700/5 گیگ بین الملل = قیمت 299/000 (2 تا 8 صبح ترافیک رایگان) ✔️ سرعت 12 مگ ، زمان 3 ماه ، حجم 650 گیگ داخلی معادل 325 گیگ بین الملل = قیمت 240/000 (2 تا 8 صبح ترافیک رایگان) . در صورت داشتن سوال میتونید با واحد فروش تماس بگیرید 📞 44510212-44588305-09128109914 و همچنین برای مشاهده سرویس های پیشنهادی حتما به قسمت پیشنهادهای ویژه سایت سر بزنید www.Rezvanco.ir . . #فناوا #فن_آوا #fanava #internet #ایتنرنت #نوروز #جشنواره #عیدی #عیدانه #رضوان_نت #реэваннет #Rezvannet @rezvannet (at مركز خريد ونوس) https://www.instagram.com/p/Cbx_qfZjMiA/?utm_medium=tumblr
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
برادران یو فیضل اور یو ارشاد ٹی شرٹس پر ویکسین سرٹیفکیٹ چھاپتے ہیں۔
برادران یو فیضل اور یو ارشاد ٹی شرٹس پر ویکسین سرٹیفکیٹ چھاپتے ہیں۔
Tumblr media
ٹی شرٹ پر پھسلیں اور اپنا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ تیار کرنے کی فکر کیے بغیر باہر نکلیں۔ ملاپورم کے کوٹپاڈ میں امپیریل پریس کے ذریعہ چھپی ہوئی ٹی شرٹس پر آپ کا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ چھاپا جائے گا۔
ٹی شرٹس نے بھائیوں یو فیضل اور ارشاد کو ٹاک آف دی ٹاؤن بنا دیا ہے ، جس میں پورے ہندوستان اور متحدہ عرب امارات ، قطر اور سعودی عرب سے تجارتی سامان کی درخواستیں آرہی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد معیشت محتاط طور پر کھلنے کے ساتھ لوگوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے ویکسین سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ دفتروں ، بینکوں ، مالوں اور دکانوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سفر ، ہوٹل چیک ان وغیرہ کے لیے داخل کریں۔
Tumblr media
ویکسین سرٹیفکیٹس والی ٹی شرٹس ان پر چھاپے گئے تھے ان کے بھائیوں یو فیضل اور ارشاد نے۔ فوٹو کریڈٹ: خصوصی اہتمام۔
“جیسے ہی حکومت نے بعض عوامی جگہوں اور دفاتر کے استعمال کے لیے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا ، لوگوں میں کافی الجھن اور بے چینی پائی گئی۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ سبزیاں خریدنے کے لیے باہر نکل سکتے ہیں یا ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ یا فون پر ویکسینیشن کی تفصیلات کے بغیر سیر کے لیے جا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا سرٹیفکیٹ کے بارے میں سوالات اور وضاحتوں سے بھرا ہوا تھا۔ فیصلے اور اس کی عملی مشکلات پر سوال اٹھانے والے سوشل میڈیا پر کافی تھے۔
‘ایک عملی حل’
سرٹیفکیٹس کے حوالے سے بڑے پیمانے پر وضاحت کی کمی کو دیکھتے ہوئے ، بھائیوں نے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کے ساتھ ٹی شرٹس چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ “ہم لوگوں کی مدد کے لیے ایک عملی حل لے کر آئے ہیں۔ یہ ان کے فون یا سرٹیفکیٹ کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت کو ختم کردے گا ، بشرطیکہ وہ ٹی شرٹ پہنیں ، یہاں تک کہ اندرونی لباس! فیضل کہتے ہیں
فیصل کا کہنا ہے کہ دونوں بھائیوں نے ٹی شرٹس سے متعلق معلومات ��اٹس ایپ پر اپنی حیثیت کے طور پر رکھی اور اسی دن انہیں ٹی شرٹ کے 50 سے 60 آرڈر ملے۔
“صارفین ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کو-ون پورٹل (cowin.gov.in) یا آروگیہ سیتو ایپ سے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور اس کا پی ڈی ایف ہمیں واٹس ایپ کے ذریعے بھیجتے ہیں۔ ہم اسے ٹی شرٹ پر ان کے لیے پرنٹ کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا پریس ، جو 58 سال قبل ان کے والد کنہالان یو نے قائم کیا تھا ، ہمیشہ رجحانات کے مطابق رہتا تھا۔ “ہمارا آفسیٹ پریس ٹی شرٹس ، مگ ، تصاویر وغیرہ پرنٹ کرنے میں تھا۔ ہمیں اوقات کے ساتھ رہنا ہے اور اس طرح ٹی شرٹس کی پرنٹنگ میں کوئی اضافی اخراجات یا سامان میں تبدیلی شامل نہیں تھی۔ یہ ایک دلچسپ آئیڈیا تھا جسے ہم نے نافذ کیا۔
ابتدائی طور پر ، ان کے بہت سے گاہک ڈرائیور تھے اور پھر وہ بزرگ شہریوں کے احکامات سے متاثر ہوئے جو اپنے آپ کو اپنے ساتھ سرٹیفکیٹ لے جانے کی پریشانی سے بچانا چاہتے تھے۔ این آر آئی نے ان سے درخواست کی کہ وہ بھارت میں اپنے والدین کے لیے ٹی شرٹ چھاپیں۔
Tumblr media
ویکسین سرٹیفکیٹس والی ٹی شرٹس پر ان کے بھائی یو فیضل اور ارشاد نے تصور کیا۔ فوٹو کریڈٹ: خصوصی اہتمام۔
ایک بار جب ٹی شرٹس مقبول ہو گئیں ، دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ حکام سے چیک کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ٹی شرٹس چھاپتے ہوئے کوئی قانون توڑ نہیں رہے۔ “ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں اس کو چھاپنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور درحقیقت ، حکام نے محسوس کیا کہ یہ زیادہ لوگوں کو ان کے جابس لینے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ تو ہم نے ایک جملہ شامل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘میں ویکسین شدہ ہوں’ ، “فیضل کہتے ہیں۔
تروپور سے بڑی تعداد میں خریدی گئی ہلکی رنگ کی ٹی شرٹس سرٹیفکیٹ کی پرنٹنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ صارفین سفید ، ہلکے پیلے ، نیلے ، اورنج یا سبز ٹی شرٹس میں سے انتخاب کر سکتے ہیں اور ویکسین کو ٹی شرٹ کے اگلے ، پیچھے یا آستین پر پرنٹ کروا سکتے ہیں۔ ہر ٹی شرٹ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ 250. کیرالہ میں کورئیر چارج 60 جبکہ ریاست سے باہر 100 ہے۔
تاہم ، وہ ایسا کرنے والے پہلے نہیں ہیں کامیڈین اتل کھتری نے 9 اگست کو سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی تھی جس میں انہیں ٹی شرٹ پہنے دکھایا گیا تھا جس میں اس کی ویکسین سرٹیفائیڈ تھی۔ ان کے ٹویٹ میں کہا گیا ، ‘چونکہ کام اور سفر دوبارہ شروع ہوا ہے اور ہوائی اڈوں ، ہوٹلوں وغیرہ میں اپنا کوویڈ سرٹیفکیٹ دکھا کر تھک گیا تھا۔
ویکسینسٹاس۔
در حقیقت ، شہری لغت میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک لفظ ہے جو اپنی آستین پر ویکسینیشن کا درجہ پہنتے ہیں: ویکسینسٹا ، ویکسین اور فیشنسٹا کا مجموعہ۔ یہ وہ شخص ہے جس کے پاس ویکسینیشن کی دونوں خوراکیں ہیں اور وہ تجارتی سامان ، سیلفیز اور کارڈ کے ذریعے دنیا کے سامنے اس کا اعلان کرنا چاہتا ہے۔ سرپرست.
ٹیلی سریز کا میتھیو پیری عرف چا��دلر بنگ۔ دوستو۔ اس سے قبل اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ویکسین سے متعلقہ اشیاء کو فروغ دیا تھا۔
چونکہ ممالک اب بھی وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے سخت چوکسی رکھے ہوئے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ویکسینسٹاس اور ان کے لیے سامان کچھ عرصے کے لیے قریب ہے۔
آن لائن مارکیٹنگ کے جنات نے اس کھیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ان پر ‘ویکسین’ لگائے ہوئے ٹی شرٹس کو میرے پلیٹ فارم پر اشتہار دیا جاتا ہے۔ جلد ہی بھائیوں کو اپنے ‘ویکسین ٹی شرٹس’ کے لیے بھی حریف ملنے کا امکان ہے۔
. Source link
0 notes
swstarone · 5 years ago
Photo
Tumblr media
رفال بمقابلہ جے ایف 17 تھنڈر: کیا فرانس سے خریدے گئے نئے رفال طیارے انڈیا کو پاکستان پر فضائی برتری دلا سکتے ہیں؟ اعظم خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد40 منٹ قبل،،تصویر کا کیپشنرفال (دائیں)، جے ایف 17 تھنڈر (بائیں)انڈیا کو فرانس سے پانچ مزید رفال طیارے ملنے کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ کیا یہ جدید طیارے پاکستان میں بنائے جانے والے جے ایف 17 تھنڈر سے بہتر ہیں یا نہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جہاں بہت سے انڈین صارفین رفال طیارے ملنے پر جشن منا رہے ہیں وہیں پاکستانی صارفین کی جانب سے جے ایف 17 طیاروں کی تکینیکی بنیادوں پر رفال پر سبقت سے متعلق بھی دعوے کیے جا رہے ہیں۔ بی بی سی نے اس حوالے سے کچھ حقائق جاننے کی کوشش کہ رفال میں وہ کیا خاص بات ہے جو کسی اور طیارے میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے انڈین اور پاکستانی فضائیہ کے حکام کا نکتہ نظر بھی اس موازنے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ حقائق جاننے سے پہلے اس بحث کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں مگر اس دوران ایک کپ چائے بنانا نہ بھولیے گا۔ جب انڈین پائلٹ ابھینندن بنے پاکستان کے مہمان۔۔۔جب پاکستانی پائلٹس نے گذشتہ برس 27 فروری کو انڈین مِگ 21 طیارہ مار گرایا تو اس پر سوار پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست ان کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ چائے کی پیالی اٹھائے اس چائے کی تعریف کرتے دکھائی دیے۔ابھینندن کا یہ جملہ ’ٹی از فینٹیسٹک‘ اب پاکستان میں زبان زد عام ہے۔ تاہم اس کے اگلے ہی دن پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت انڈین پائلٹ کو واپس گھر بھیج رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل انڈین طیارے پاکستان میں بالاکوٹ کے قریب بمباری کر کے واپس چلے گئے تھے جس کے جواب میں پاکستان نے کارروائی کی تھی۔ اس واقعے کے بعد انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ ’اگر انڈیا کے پاس رفال طیارے ہوتے تو پاکستان کے ساتھ بالاکوٹ واقعے کا نتیجہ بہتر ہوتا۔‘،DASSAULT،تصویر کا کیپشنرفال کی خریداری پر انڈیا میں کئی طرح کے سوال اٹھائے گئے ہیںرواں برس فروری میں اسلام آباد ایئر ہیڈ کوارٹر میں میڈیا کے نمائندوں کو روسی ساختہ جہاز مِگ 21 کا ملبہ دکھایا گیا۔ اس موقع پر اُس وقت پاکستانی فضائیہ کے اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر سٹاف پلانز ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے کہا تھا کہ اگر انڈیا کے پاس ’رفال آ بھی جائے تو بھی ہم تیار ہیں۔‘بالاکوٹ واقعے کے بعد پاکستان نے انڈیا کے خلاف فضائی آپریشن میں جے ایف 17 تھنڈر اور ایف 16 بھی استعمال کیے تھے۔ ان طیاروں کی خصوصیات جاننے سے پہلے ایک نظر فرانس سے آئے چھ رفال طیاروں پر۔ رفال انڈیا پہنچ گیا: اس طیارے میں کون سی خوبیاں ہیں؟فرانس کی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت انڈیا کو کل 36 رفال طیارے ملنے ہیں جن میں سے چھ طیارے انڈیا پہنچ چکے ہیں۔ رفال جوہری میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں دو طرح کے میزائل نصب ہو سکتے ہیں، ایک کا مار کرنے کا فاصلہ 150 کلومیٹر جبکہ دوسرے کا تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رفال طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے جبکہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہے۔یہ انڈین فضائیہ کی جانب سے استعمال ہونے والے میراج 2000 کی جدید شکل ہے اور انڈین ایئر فورس کے پاس اس وقت 51 میراج 2000 طیارے ہیں۔رفال بنانے والی کمپنی داسو ایوی ایشن کے مطابق رفال کی حد رفتار 2020 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔طیاری کی اونچائی 5.30 میٹر اور لمبائی 15.30 میٹر ہے اور اس طیارے میں فضا میں بھی ایندھن بھرا جا سکتا ہے۔ رفال کو اب تک افغانستان، لیبیا، مالی، عراق اور شام جیسے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔رفال اوپر، نیچے، دائیں اور بائیں ہر طرف نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی اس کی وِزیبلٹی 360 ڈگری ہے۔کئی طرح کی خوبیوں سے لیس رفال کو بین الاقوامی معاہدوں کے سبب جوہری اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا میراج 2000 کی طرح رفال کو بھی اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لے گا۔،EPA،تصویر کا کیپشنانڈین فضائیہ کی جانب سے جاری کی گیی تصویر میں رفال کو انبالہ ایئر بیس پر لینڈ کرتے دیکھا جا سکتا ہے’رفال کی صلاحیتوں پر کوئی شبہ نہیں‘انڈین فضائیہ کا کہنا ہے کہ ’رفال ایک بہترین اور باصلاحیت جنگی طیارہ ہے۔‘ سابق وزیر دفاع منوہر پاریکھ کا کہنا تھا کہ ’رفال کا نشانہ کبھی نہیں چوکتا۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین دفاعی تجزیہ کار معروف رضا کہتے ہیں رفال کی خصوصیات کی وجہ سے اسے ’ف��رس ملٹی پلایئر‘ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رفال کی فلائنگ رینج عام جنگی طیاروں سے کہیں زیادہ ہے۔رضا بتاتے ہیں ’اس کی آپریشنل صلاحیت 65 سے 70 فیصد تک ہے جبکہ جنگی طیارے سخوئی کی آپریشنل صلاحیت 50 فیصد تک ہے۔ ’یہ پہاڑی علاقوں اور چھوٹے مقامات پر اُتر سکتا ہے اس کے علاوہ سمندر میں چلتے ہوئے طیارہ بردار بحری جہاز پر بھی اتر سکتا ہے۔‘جے ایف-17 تھنڈر کن صلاحیتوں کا حامل ہے؟جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ پاکستان کے لیے اس وجہ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اسے خود تیار کرتا ہے۔پاکستان نے چین کی مدد سے ہی ان طیاروں کو بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ طیارہ ایک ہمہ جہت، کم وزن، فورتھ جنریشن ملٹی رول ایئر کرافٹ ہے۔ اس طیارے کی تیاری، اپ گریڈیشن اور ’اوورہالنگ‘ کی سہولیات بھی ملک کے اندر ہی دستیاب ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس طیارے کی تیاری کے مراحل کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہے۔ عسکری حکام کے مطابق یہ طیارہ دنیا بھر میں کئی اہم شوز میں بھی پذیرائی حاصل کر چکا ہے اور دنیا نے اس کی بہت اچھی اسسمینٹ کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے شو میں جے ایف 17 کے لیے دعوت نامہ ضرور آتا ہے۔ ،Indian Air Force،تصویر کا کیپشنرفال طیارےپاکستان نے جے ایف 17 پر کب کام شروع کیا؟یہ قصہ سنہ 1995 سے شروع ہوتا ہے جب پاکستان اور چین نے جے ایف 17 سے متعلق ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔اس طیارے کا پہلا آزمائشی ماڈل سنہ 2003 میں تیار ہوا اور پاکستانی فضائیہ نے سنہ 2010 میں جے ایف-17 تھنڈر کو پہلی مرتبہ اپنے فضائی بیڑے میں شامل کیا۔اس منصوبے میں مِگ طیارے بنانے والی روسی کمپنی میکویان نے بھی شمولیت اختیار کر لی۔ پاکستان فضائیہ نے جے ایف-17 تھنڈر کو مدت پوری کرنے والے میراج، ایف 7 اور اے 5 طیاروں کی تبدیلی کے پروگرام کے تحت ڈیزائن کیا۔دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق جے ایف تھنڈر طیارہ ایف-16 فیلکن کی طرح ہلکے وزن کے ساتھ ساتھ تمام تر موسمی حالات میں زمین اور فضائی اہداف کو نشانہ بنانے والا ہمہ جہت طیارہ ہے جو دور سے ہی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل سے لیس ہے۔جے ایف-17 تھنڈر نے اسی صلاحیت کی بدولت بی وی آر (Beyond Visual Range) میزائل سے بالاکوٹ واقعے میں انڈین فضائیہ کے مگ کو گرایا تو اس کے سا��ھ ہی جے ایف-17 تھنڈر کو بھی خوب پذیرائی ملی۔ جے ایف-17 تھنڈر طیاروں میں وہ جدید ریڈار نصب ہے جو رفال کی بھی بڑی خوبی گنی جاتی ہے۔ یہ طیارا ہدف کو لاک کر کے میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کی رینج 150 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے اور یہ میزائل اپنے ہدف کا بالکل ایسے ہی پیچھا کرتا ہے جیسے ہالی وڈ کی متعدد فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔جے ایف-17 تھنڈر زمین پر حریف کی نگرانی اور فضائی لڑائی کے ساتھ ساتھ زمینی حملے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ طیارہ فضا سے زمین، فضا سے فضا اور فضا سے سطحِ آب پر حملہ کرنے والے میزائل سسٹم کے علاوہ دیگر ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔،PPI،تصویر کا کیپشنجے ایف 17 تھنڈرانڈیا جے ایف کی برتری تسلیم کرنے کو تیار کیوں نہیں؟پاکستان کی طرف سے مگ 21 گرانے کے واقعے کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران انڈین فضائیہ کے ایئر وائس مارشل کپور نے اس بات کا دعوٰی کیا تھا کہ پاکستان نے ایئر ٹو ایئر میزائل استعمال کیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی صرف پاکستانی ایف-16 طیاروں میں ��وجود ہے۔ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری، پاکستان کے موقف کو درست مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ جے ایف 17 ایسا طیارہ ہے جو ملکی ضروریات کے حساب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ رفال اور جے ایف 17 کے درمیان موازنے پر شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہر طیارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، اس کی رفتار، حجم یا کسی اور پہلو سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کار اور ڈمپر کا موازنہ شروع کر دیں جبکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس چیز کو کس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘ان کے نزدیک اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ قوت اور صلاحیت کیا ہے۔ جے ایف کی خصوصیات اور تعداد سے متعلق شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ یہ تفصیلات تو کبھی نہیں بتائیں گے۔شہزاد چوہدری کے مطابق ’ہمارے مقاصد کے اعتبار سے جے ایف 17 بہترین آپشن ہے۔ انڈیا کے طیارے تو اس وقت بھی اچھے تھے جب پاکستان نے انڈین طیارہ مار گرایا تھا۔‘تاہم شاہد لطیف کا دعویٰ ہے کہ ’انڈیا کے طیارے اڑتی پھرتی لاشیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں رفال جیسی مہنگی ڈیل کی طرف جانا پڑا۔‘شاہد لطیف کے مطابق تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہ سب کچھ تو جے ایف 17 میں بھی ہے جو رفال میں بتائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر رفال میں فورتھ جنریشن ہے تو جے ایف 17 میں فورتھ اینڈ ہاف جنریشن تک صلاحیت ہے۔،،تصویر کا کیپشنجے ایف 17جے ایف 17 کہاں تیار کیے جا رہے ہیں؟سابق ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف نے بی بی سی کو بتایا کہ جے ایف 17 طیاروں کی خاص بات ہی یہ ہے کہ یہ باہر کے ممالک سے نہیں بلکہ پاکستان کے اندر کامرہ کے مقام پر تیار کیے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب انڈیا کو مشکل صورتحال میں فرانس کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ان کے مطابق پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ جب مرضی اور جتنے مرضی طیارے بنائے۔ شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ سو سے زائد جے ایف 17 تیار کر کے فضائیہ کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر کموڈور قیصر طفیل نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ دسمبر 2018 میں پاکستان نے 112 جے ایف طیارے تیار کر لیے تھے جبکہ مزید 76 پر کام جاری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک سال میں 24 جے ایف 17 طیارے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ انڈیا کو رفال ملنے میں کئی سال لگ جائیں گے کیونکہ یہ سب اتنی جلدی نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق ’اگر کوئی خرابی واقع ہوتی ہے تو پھر انڈیا کو ہر بار فرانس کا رخ کرنا ہو گا۔‘ شاہد لطیف کے مطابق سب سے زیادہ اہمیت ’اسسمینٹ‘ کی ہوتی ہے طیارے کی نہیں۔ ان کے مطابق رفال بھی فورتھ جنریشن طیارہ ہے جس طرح ایس یو-30 تھا جس کو پاکستانی پائلٹس نے گرایا تھا۔ جے ایف-17 کی ڈیزائن لائف چار ہزار گھنٹے یا 25 سال بتائی جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس طیارے میں نصب ریڈار نظام کی بدولت جے ایف-17 تھنڈر بیک وقت 15 اہداف کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ چار اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔،AFP،تصویر کا کیپشنایف 16 طیارے’ایف 16 طیاروں کے استعمال پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں‘ایف 16 طیارے کے استعمال سے متعلق سوال پر ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے واضح کیا کہ ’اس کے لیے پاکستانی فضائیہ کو کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارے ہتھیار ہیں جن کو ہم نے اپنے دفاع کے لیے استعمال کرنا ہے۔‘شاید لطیف اور شہزاد چوہدری نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان پر ان طیاروں کے استعمال سے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔شاہد لطیف نے یہاں تک کہا کہ وہ ان ابتدائی چھ پائلٹ میں شامل تھے جو امریکہ کے ساتھ اس معاہدے میں شامل تھے اور انھوں نے سب سے پہلے یہ طیارہ اڑایا تھا۔ ان کے مطابق امریکہ نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو مزید ایف 16 کی حوالگی پر پابندی عائد کیے رکھی۔ شہزاد چوہدری کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو معاہدے کے تحت تمام طیارے دے دیے ہیں۔ انھوں نے اس طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کیا ہے۔ شاہد لطیف کہتے ہیں کہ امریکہ اب بھی دیگر ممالک کو پاکستان سے طیارے نہیں خریدنے دے رہا ہے اور ایسے معاہدوں میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ ان کے مطابق اب امریکہ کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان نے ایف 16 کے مقابلے کا اپنا جے ایف 17 تیار کر لیا ہے۔ ان کے خیال میں اب کوئی پاکستان کو بلیک میل نہیں کر سکتا۔ سوشل میڈیا پر بحثجہاں سوشل میڈیا پر ماہرین رفال اور جے ایف 17 سے متعلق تبصرے کرتے نظر آتے ہیں وہیں ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ جے ایف 17 تھنڈر ٹرینڈ کرتا نظر آیا۔ ٹوئٹر پر اس بحث میں ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری کے علاوہ سٹریٹجک پلان ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ’آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرنامنٹ‘ کے ڈائریکٹر خالد بنوری بھی رفال اور پاکستانی طیاروں سے متعلق بحث پر دلچسپی لیتے نظر آئے اور انھوں نے بھی ٹوئٹر پر کئی ایسی ٹویٹس لائیک اور ری ٹویٹس کیے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے تو رفال سے متعلق انڈیا کے سابق کرکٹر گوتم گھمبیر کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’سادہ چائے 20 اور دودھ پتی 50 روپے فی کپ ہے۔‘ پراؤڈ پاکستانی نامی صارف نے تو پانچ رفال طیاروں کو فضا میں اڑتے دکھایا اور ان کے سامنے فضا میں ہی پانچ کپ چائے کے رکھ دیے۔ اس تصویر کو دیگر کئی اور صارفین نے شیئر کیا۔ ایک صارف نے تو اس تصویر کے ساتھ ابھینندن کا وہ جملہ بھی لکھا کہ ’ٹی از فینٹیسٹک۔‘ گوتم گھمبیر اور انڈین فوج سے میجر جنرل کے رینک سے ریٹائر ہونے والے جی ڈی بخشی کی ٹویٹ پر سینکڑوں تبصرے کیے گئے۔ جی ڈی بخشی نے رفال کی تصویر کے ساتھ اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’عقاب انڈیا اتر چکا ہے اور یہ جنوبی ایشیا میں ایک گیم چینجر ہو گا۔‘شاہ البشاوری نامی صارف نے تو دونوں طیاروں کا ایک ہی ٹویٹ میں ایسے موازنہ پیش کیا کہ جیسے وہ اس شعبے میں خاص مہارت رکھتے ہوں۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
soalmag · 1 month ago
Link
چیپس خانگی
0 notes
divansalar-blog · 5 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎🇨🇦آشنایی با مراحل درخواست ویزای ویزیتوری کانادا . . 1️⃣ بررسی واجد شرایط بودن برای درخواست ویزای ویزیتوری کانادا 2️⃣ ساخت اکانت Mycic 3️⃣ درخواست Visitor Visa از داخل اکانت Mycic، باجواب دادن به سوال‌ها 4️⃣ دریافت چک لیست و دانلود فرم ها لازم برای ویزا مخصوص هر فرد 5️⃣ تهیه و ترجمه مدارک لازم برای درخواست ویزای ویزیتوری 6️⃣ تکمیل فرم ها، و تهیه یک فایل منسجم از مدارک با حجم کمتر از 4 مگ 7️⃣ آپلود کردن همه مدارک و فرم ها ⚠️ مراحل 3 تا 6 باید قبل از 60 روز از درخواست Visitor Visa در اکانت Mycic، انجام گیرد، در غیر این صورت باید درخواست را حذف کنید، و دوباره به سوال ها جواب بدید. ⭕️ اعتبار 60 روزه به خاطر تغییر قوانین و فرم ها می باشد، و گاهی ساختار اکانت Mycic هم تغییر می کند و آپدیت می گردد. 8️⃣ پرداخت هزینه های ویزا و بیومتریک (مخصوص تنها 29 کشور، از جمله ایران ) 9️⃣ دانلود نامه بیومتریک از اکانت mycic، در قسمت مسیج ها هر فرد ( افراد بین 14 تا 80 سال ) و پرینت کردن آن . 🔟 مراجعه به یکی از دفاتر vac و انجام امور بایومتریک (تنها نامه پرینت شده بایومتریک با پاسپورت به همراه داشته باشید) 1️⃣1️⃣ بررسی آبدیت های اکانت Mycic و ایمیل های دریافتی 2️⃣1️⃣ دریافت نامه درخواست پاسپورت 3️⃣1️⃣پیکاپ پاسپورت برای الصاق ویزا از طریق خودش یا آژانس ها 4️⃣1️⃣ دریافت پاسپورت، خرید بلیط و سفر به کانادا . ‎ #آشنایی با #مراحل #درخواست #ویزای #ویزیتوری #توریستی کانادا #Visa #Visitor #step_to_step‎‏ (در ‏‎North York, Toronto‎‏) https://www.instagram.com/p/B5LTpKMFis_HJWSj3NggcNbUfauJvdiL1bASHg0/?igshid=1u20ux13tdnlb
0 notes
humlog786-blog · 6 years ago
Text
ممی ۔ افسانہ۔سعادت حسن منٹو
Tumblr media
نام اس کا مسز سٹیلا جیکسن تھا مگر سب اسے ممی کہتے تھے۔ درمیانے قد کی ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کا خاوند جیکسن پچھلی سے پچھلی جنگ عظیم میں مارا گیا تھا اس کی پنشن سٹیلا کو قریب قریب دس برس سے مل رہی تھی۔ وہ پونہ میں کیسے آئی۔ کب سے وہاں تھی۔ اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ دراصل میں نے اس کے محل وقوع کے متعلق کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ اتنی دلچسپ عورت تھی کہ اس سے مل کر سوائے اس کی ذات سے اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہتی تھی۔ اس سے کون کون وابستہ ہے۔ اس کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اس لیے کہ وہ پُونہ کے ہر ذرے سے وابستہ تھی۔ ہو سکتا ہے یہ ایک حد تک مبالغہ ہو۔ مگر پونہ میرے لیے وہی پونہ ہے اور اس کے وہی ذرے، اس کے تمام ذرے ہیں جن کے ساتھ میری چند یادیں منسلک ہیں۔ اور ممی کی عجیب و غریب شخصیت ان میں سے ہر ایک میں موجود ہے۔ اس سے میری پہلی ملاقات پونے ہی میں ہوئی۔ میں نہایت سست الوجود انسان ہوں۔ یوں تو سیرو سیاحت کی بڑی بڑی امنگیں میرے دل میں موجود ہیں۔ آپ میری باتیں سنیں تو آپ سمجھیے گا کہ میں عنقریب کنچن چنگا یا ہمالہ کی اسی قسم کے نام کی کسی اور چوٹی کو سر کرنے کے لیے نکل جانے والا ہوں۔ ایسا ہوسکتا ہے مگر یہ زیادہ اغلب ہے کہ میں یہ چوٹی سر کرکے وہیں کا ہورہوں۔ خدا معلوم کتنے برس سے بمبئی میں تھا۔ آپ اس سے اندازہ سکتے ہیں کہ جب پونے گیا تو بیوی میرے ساتھ تھی۔ ایک لڑکا ہو کر اس کو مرے قریب قریب چار برس ہو چکے تھے۔ اس دوران میں۔ ٹھہریئے میں حساب لگالوں۔ آپ یہ سمجھ لیے کہ آٹھ برس سے بمبئی میں تھا۔ مگر اس دوران میں مجھے وہاں کا ورکٹوریہ گارڈنز اور میوزیم دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو محض اتفاق تھا کہ میں ایک دم پونہ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جس فلم کمپنی میں ملازم تھا اس کے مالکوں سے ایک نکمی سی بات پر دل میں ناراضی پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ تکدر دور کرنے کے لیے پونہ ہو آؤں۔ وہ بھی اس لیے کہ پاس تھا اور وہاں میرے چند دوست رہتے تھے۔ مجھے پربھات نگر جانا تھا۔ جہاں میرا فلموں کا ایک پرانا ساتھی رہتا تھا۔ اسٹیشن کے باہر معلوم ہوا کہ یہ جگہ کافی دور ہے۔ مگر اس وقت ہم ٹانگہ لے چکے تھے۔ سست رو چیزوں سے میری طبیعت سخت گھبراتی ہے۔ مگر میں اپنے دل سے کدورت دور کرنے کے لیے آیا تھا اس لیے مجھے پربھات نگر پہنچنے میں کوئی عجلت نہیں تھی۔ تانگہ بہت واہیات قسم کا تھا۔ علی گڑھ کے یکوں سے بھی زیادہ واہیات۔ ہر وقت گرنے کا خطرہ رہتاہے۔ گھوڑ ا آگے چلتا ہے اور سواریاں پیچھے۔ ایک دو گرد سے اٹے ہوئے بازار افتاں و خیزاں طے ہوئے تو میری طبیعت گھبرا گئی۔ میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور پوچھا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ دھوپ تیز ہے۔ میں نے جو اور تانگے دیکھے ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں۔ اگر اسے چھوڑ دیا تو پیدل چلنا ہو گا، جو ظاہر ہے کہ اس سواری سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس سے اختلاف مناسب نہ سمجھا۔ دھوپ واقعی تیز تھی۔ گھوڑا ایک فرلانگ آگے بڑھا ہو گا کہ پاس سے اسی ہونق ٹائپ کا ایک تانگہ گزرا۔ میں نے سرسری طور پر دیکھا۔ ایک دم کوئی چیخا ’’اوئے منٹو گھوڑے!‘‘ میں چونک پڑا۔ چڈہ تھا۔ ایک گھسی ہوئی میم کے ساتھ۔ دونوں ساتھ ساتھ جڑ کے بیٹھے تھے۔ میرا پہلا رد عمل انتہائی افسوس کا تھا کہ چڈے کی جمالیاتی حس کہاں گئی جو ایسی لال لگامی کے ساتھ بیٹھا ہے۔ عمر کا ٹھیک اندازہ تو میں نے اس وقت نہیں کیا تھا مگر اس عورت کی جُھریاں پاؤڈر اور روج کی تہوں میں سے بھی صاف نظر آرہی تھی۔ اتنا شوخ میک اپ تھا کہ بصارت کو سخت کوفت ہوتی تھی۔ چڈے کو ایک عرصے کے بعد میں نے دیکھا تھا۔ وہ میرا بے تکلف دوست تھا۔ ’’اوئے منٹو گھوڑے‘‘ کے جواب میں یقیناً میں نے بھی کچھ اسی قسم کا نعرہ بلند کیا تھا، مگر اس عورت کو اس کے ساتھ دیکھ کر میری ساری بے تکلفی جھریاں جھریاں ہو گئی۔ میں نے اپنا تانگہ رکوالیا۔ چڈے نے بھی اپنے کوچوان سے کہا کہ ٹھہر جائے پھر اس نے اس عورت سے مخاطب ہو کر انگریزی میں کہا ’’می جسٹ اے منٹ‘‘ تانگے سے کود کر وہ میری طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے چیخا ’’تم؟۔ تم یہاں کیسے آئے ہو۔ ‘‘ پھر اپنا بڑھا ہوا ہاتھ ب��ے بے تکلفی سے میری پُرتکلف بیوی سے ملاتے ہوئے کہا۔ ’’بھابی جان۔ آپ نے کمال کردیا۔ اس گل محمد کو آخر آپ کھینچ کر یہاں لے ہی آئیں۔ ‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘ چڈے نے اونچے سروں میں کہا۔ ’’ایک کام سے جارہا ہوں۔ تم ایسا کرو سیدھے۔ ‘‘ وہ ایک دم پلٹ کر میرے تانگے والے سے مخاطب ہوا ’’دیکھو صاحب کو ہمارے گھر لے جاؤ۔ کرایہ ورایہ مت لینا ان سے۔ ‘‘ ادھر سے فوراً ہی فارغ ہو کر اس نے نبٹنے کے انداز میں مجھ سے کہا۔ ’’تم جاؤ۔ نوکر وہاں ہو گا۔ باقی تم دیکھ لینا۔ ‘‘ اور وہ پھدک کر اپنے ٹانگے میں اس بوڑھی میم کے ساتھ بیٹھ گیا جس کو اس نے ممی کہا تھا۔ اس سے مجھے ایک گونہ تسکین ہوئی تھی بلکہ یوں کہیے کہ وہ بوجھ جو ایک دم دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر میرے سینے پر آپڑا تھا کافی حد تک ہلکا ہو گیا تھا۔ اس کا تانگہ چل پڑا۔ میں نے اپنے تانگے والے سے کچھ نہ کہا۔ تین یا چار فرلانگ چل کر وہ ایک ڈاک بنگلہ نما قسم کی عمارت کے پاس رکا اور نیچے اتر گیا ’’چلیے صاحب۔ ‘‘ میں نے پوچھا ’’کہاں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’چڈہ ��احب کا مکان یہی ہے۔ ‘‘ ’’اوہ‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ اس کے تیوروں نے مجھے بتایا کہ وہ چڈے کے مکان کے حق میں نہیں تھی۔ سچ پوچھیے تو وہ پونہ ہی کے حق میں نہیں تھی۔ اس کو یقین تھا کہ مجھے وہاں پینے پلانے والے دوست مل جائیں گے۔ تکدر دور کرنے کا بہانہ پہلے ہی سے موجود تھا، اس لیے دن رات اڑے گی۔ میں تانگے سے اتر گیا۔ چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا، وہ میں نے اٹھایا اور اپنی بیوی سے کہا ’’چلو!‘‘ وہ غالباً میرے تیوروں سے پہچان گئی تھی کہ اسے ہر حالت میں میرا فیصلہ قبول کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس نے حیل و حجت نہ کی اور خاموش میرے ساتھ چل پڑی۔ بہت معمولی قسم کا مکان تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملٹری والوں نے عارضی طور پر ایک چھوٹا سا بنگلہ بنایا تھا۔ تھوڑی دیر اسے استعمال کیا اور چلتے بنے۔ چونے اور گچ کا کام بڑا کچا تھا۔ جگہ جگہ سے پلستر اکھڑا ہوا تھا۔ اور گھر کا اندرونی حصہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ایک بے پروا کنوارے کا ہو سکتا ہے، جو فلموں کا ہیرو ہو، اور ایسی کمپنی میں ملازم ہو جہاں ماہانہ تنخواہ ہر تیسرے مہینے ملتی ہے اور وہ بھی قسطوں میں۔ مجھے اس کا پورا احساس تھا کہ وہ عورت جو بیوی ہو، ایسے گندے ماحول میں یقیناًپریشانی اور گھٹن محسوس کرے گی، مگر میں نے یہ سوچا تھا کہ چڈہ آجائے تو اس کے ساتھ ہی پربھات نگر چلیں گے۔ وہاں جو میرا فلموں کا پرانا ساتھی رہتا تھا، اس کی بیوی اور بال بچے بھی تھے۔ وہاں کے ماحول میں میری بیوی قہردرویش برجان درویش دو تین دن گزار سکتی تھی۔ نوکر بھی عجیب لااُبالی آدمی تھا۔ جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو سب دروازے کھلے تھے، مگر وہ موجود نہیں تھا۔ جب آیا تو اس نے ہماری موجودگی کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ جیسے ہم سالہا سال سے وہیں بیٹھے تھے اور اسی طرح بیٹھے رہنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہو کر ہمیں دیکھے بغیر پاس سے گزر گیا تو میں سمجھا کہ شاید کوئی معمولی ایکٹر ہے جو چڈہ کے ساتھ رہتا ہے۔ پر جب میں نے اس سے نوکر کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ وہی ذاتِ شریف چڈہ صاحب کے چہیتے ملازم تھے۔ مجھے اور میری بیوی دونوں کو پیاس لگ رہی تھی۔ اس سے پانی لانے کو کہا تو وہ گلاس ڈھونڈنے لگا۔ بڑی دیرکے بعد اس نے ایک ٹوٹا ہوا مگ الماری کے نیچے سے نکالا اور بڑبڑایا ’’رات ایک درجن گلاس صاحب نے منگوائے تھے۔ معلوم نہیں کدھر گئے۔ ‘‘ میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے شکستہ مگ کی طرف اشارہ کیا۔ ’’کیا آپ اس میں تیل لینے جارہے ہیں۔ ‘‘ تیل لینے جانا، بمبئی کا ایک خاص محاورہ ہے۔ میری بیوی اس کا مطلب نہ سمجھی، مگر ہنس پڑی۔ نوکر کسی قدر بوجھلا گیا۔ ’’نہیں صاحب۔ میں۔ تلاس کررہا تھا کہ گلاس کہاں ہیں۔ ‘‘ میری بیوی نے اس کو پانی لانے سے منع کردیا۔ اس نے وہ ٹوٹا ہوا مگ واپس الماری کے نیچے اس انداز سے رکھا کہ جیسے وہی اس کی جگہ تھی۔ اگر اسے کہیں اور رکھ دیا جاتا تو یقیناً گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ اس کے بعد وہ یوں کمرے سے باہر نکلا جیسے اس کو معلوم تھا کہ ہمارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ میں پلنگ پر بیٹھا تھا جو غا لباً چڈے کا تھا۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر دو آرام کرسیاں تھیں۔ ان میں سے ایک پر میری بیوی بیٹھی پہلو بدل رہی تھی۔ کافی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ اتنے میں چڈہ آگیا۔ وہ اکیلا تھا۔ اس کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ ہم اس کے مہمان ہیں۔ اور اس لحاظ سے ہماری خاطر داری اس پر لازم تھی۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس نے مجھ سے کہا ’’ویٹ از ویٹ۔ تو تم آگئے اولڈ بوائے۔ چلو ذرا اسٹوڈیو تک ہو آئیں۔ تم ساتھ ہو گے تو ایڈوانس ملنے میں آسانی ہو جائے گی۔ آج شام کو۔ ‘‘ میری بیوی پر اس کی نظر پڑی تو وہ رک گیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔ ’’بھابی جان، کہیں آپ نے اسے مولوی تو نہیں بنا دیا‘‘ پھر اور زور سے ہنسا۔ ’’مولویوں کی ایسی تیسی، اٹھو منٹو۔ بھابی جان یہاں بیٹھی ہیں۔ ہم ابھی آجائیں گے!‘‘ میری بیوی جل کر پہلے کوئلہ تھی تو اب بالکل راکھ ہو گئی تھی۔ میں اٹھا اور چڈہ کے ساتھ ہولیا۔ مجھے معلوم تھا کہ تھوڑی دیر پیچ و تاپ کھا کر وہ سو جائے گی، چنانچہ یہی ہوا۔ اسٹوڈیو پاس ہی تھا۔ افراتفری میں مہتہ جی کے سر چڑھ کے چڈے نے مبلغ دو سو روپے وصول کیے۔ اور ہم پون گھنٹے میں جب واپس آئے تو دیکھا کہ وہ آرام کرسی پر بڑے آرام سے سو رہی تھی۔ ہم نے اسے بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے کمرے میں چلے گئے جو کباڑ خانے سے ملتا جلتا تھا۔ اس میں جو چیز تھی حیرت انگیز طریقے پر ٹوٹی ہوئی تھی کہ سب مل کر ایک سالمگی اختیار کرگئی تھیں۔ ہر شے گرد آلود تھی، اور اس آلودگی میں ایک ضروری پن تھا۔ جیسے اس کی موجودگی اس کمرے کی بوہیمی فضا کی تکمیل کے لیے لازمی تھی۔ چڈے نے فوراً ہی اپنے نوکر کو ڈھونڈ نکالا اور اسے سو روپے کا نوٹ دے کر کہا۔ ’’چین کے شہزادے۔ دو بوتلیں تھرڈ کلاس رم کی لے آؤ۔ میرا مطلب ہے تھری ایکس رم کی اور نصف درجن گلاس۔ ‘‘ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نوکر صرف چین ہی کا نہیں۔ دنیا کے ہر بڑے ملک کا شہزادہ تھا۔ چڈے کی زبان پر جس کا نام آجاتا، وہ اسی کا شہزادہ بن جاتا تھا۔ اس وقت کا چین کا شہزادہ سو کا نوٹ انگلیوں سے کھڑکھڑاتا چلا گیا۔ چڈے نے ٹوٹے ہوئے سپرنگوں والے پلنگ پر بیٹھ کر اپنے ہونٹ تھری ایکس رم کے استقبال میں چٹخارتے ہوئے کہا ’’ڈیٹ از ڈیٹ۔ تو آفٹر آل تم ادھر آہی نکلے۔ ‘‘ لیکن ایک دم متفکر ہو گیا۔ ’’یار، بھابی کا کیا ہو۔ وہ تو گھبرا جائے گی۔ ‘‘ چڈہ بغیر بیوی کے تھا، مگر اس کو دوسروں کی بیویوں کا بہت خیال رہتا تھا۔ وہ اس کا اس قدر احترام کرتا تھا کہ ساری عمر کنوارا رہنا چاہتا تھا، وہ کہا کرتا تھا۔ ’’یہ احساس کمتری ہے جس نے مجھے ابھی تک اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ جب شادی کا سوال آتا تو فوراً تیار ہو جاتا ہوں۔ لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ میں بیوی کے قابل نہیں ہوں ساری تیاری کولڈ اسٹوریج میں ڈ ال دیتا ہوں۔ ‘‘ رم فوراً ہی آگئی۔ اور گلاس بھی۔ چڈے نے چھ منگوائے تھے۔ اور چین کا شہزادہ تین لایا تھا۔ بقایا تین راستے میں ٹوٹ گئے تھے۔ چڈے نے ان کی کوئی پروا نہ کی، اور خدا کا شکر کیا کہ بوتلیں سلامت رہیں۔ ایک بوتل جلدی جلدی کھول کر اس نے کنوارے گلاسوں میں رم ڈالی اور کہا ’’تمہارے پونے آنے کی خوشی میں۔ ‘‘ ہم دونوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور گلاس خالی کردیے۔ دوسرا دور شروع کرکے چڈہ اٹھا اور دوسرے کمرے میں دیکھ کر آیا کہ میری بیوی ابھی تک سو رہی ہے۔ اس کو بہت ترس آیا اور کہنے لگا۔ ’’میں شور کرتا ہوں ان کی نیند کھل جائے گی۔ پھر ایسا کریں گے۔ ٹھہرو۔ پہلے میں چائے منگواتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے رم کا ایک چھوٹا سا گھونٹ لیا اور نوکر کو آواز دی ’’جمیکا کے شہزادے۔ ‘‘ جمیکا کا شہزادہ فوراً ہی آگیا۔ چڈے نے اس سے کہا۔ ’’دیکھو، ممی سے کہو، ایک دم فسٹ کلاس چائے تیار کرکے بھیج دے۔ ایک دم!‘‘ نوکر چلا گیا۔ چڈے نے اپنا گلاس خالی کیا اور شریفانہ پیگ ڈال کر کہا۔ ’’میں فی الحال زیادہ نہیں پیوں گا۔ پہلے چار پیگ مجھے بہت جذباتی بنا دیتے ہیں۔ مجھے بھابی کو چھوڑنے تمہارے ساتھ پربھات نگر جانا ہے۔ ‘‘ آدھے گھنٹے کے بعد چائے آگئی۔ بہت صاف برتن تھے اور بڑے سلیقے سے ٹرے میں چنے ہوئے تھے۔ چڈے نے ٹی کوزی اٹھا کر چائے کی خوشبو سونگھی اور مسرت کا اظہار کیا۔ ’’می از اے جیول۔ !‘‘ اس نے ایتھوپیا کے شہزادے پر برسنا شروع کردیا۔ اتنا شور مچایا کہ میرے کان بلبلا اٹھے۔ اس کے بعد اس نے ٹرے اٹھائی اور مجھ سے کہا۔ ’’آؤ۔ ‘‘ میری بیوی جاگ رہی تھی۔ چڈے نے ٹرے بڑی صفائی سے شکستہ تپائی پر رکھی اورمودبانہ کہا۔ ’’حاضر ہے بیگم صاحب!‘‘ میری بیوی کو یہ مذاق پسند نہ آیا، لیکن چائے کا سامان چونکہ صاف ستھرا تھا اس لیے اس نے انکار نہ کیا اور دو پیالیاں پی لیں۔ اِن سے اس کو کچھ فرحت پہنچی اور اس نے ہم دونوں سے مخاطب ہو کر معنی خیز لہجے میں کہا۔ ’’آپ اپنی چائے تو پہلے ہی پی چکے ہیں!‘‘ میں نے جواب نہ دیا مگر چڈے نے جھک کر بڑے ایماندارانہ طور پر کہا۔ ’’جی ہاں، یہ غلطی ہم سے سرزد ہو چکی ہے، لیکن ہمیں یقین تھا کہ آپ ضرور معاف کردیں گی۔ ‘‘ میری بیوی مسکرائی تو وہ کھکھلا کے ہنسا۔ ’’ہم دونوں بہت اونچی نسل کے سؤر ہیں۔ جن پر ہر حرام شے حلال ہے!۔ چلیے، اب ہم آپ کو مسجد تک چھوڑ آئیں!‘‘ میری بیوی کوپھرچڈے کا یہ مذاق پسند نہ آیا۔ دراصل اس کوچڈے ہی سے نفرت تھی، بلکہ یوں کہیے کہ میرے ہر دوست سے نفرت تھی۔ اور چڈہ بالخصوص اسے بہت کھلتا تھا، اس لیے کہ وہ بعض اوقات بے تکلفی کی حدود بھی پھاند جاتا تھا، مگر چڈے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میرا خیال ہے اس نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ ایسی فضول باتوں میں دماغ خرچ کرنا ایک ایسی ان ڈور گیم سمجھتا تھا جو لوڈو سے کئی گنا لایعنی ہے۔ اس نے میری بیوی کے جلے بھنے تیوروں کو بڑی ہشاش بشاش آنکھوں سے دیکھا اور نوکر کو آواز دی۔ ’’کبابستان کے شہزادے۔ ایک عدد ٹانگہ لاؤ۔ رولزرائس قسم کا۔ ‘‘ کبابستان کا شہزادہ چلا گیا اور ساتھ ہی چڈہ۔ وہ غالباً دوسرے کمرے میں گیا تھا۔ تخلیہ ملا تو میں نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ کباب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آہی جایا کرتے ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ان کو بسر کرنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ان کو گزر جانے دیا جائے۔ لیکن حسب معمول اس نے میری اس کنفیوشسانہ نصیحت کو پلے نہ باندھا اور بڑبڑاتی رہی۔ اتنے میں کبابستان کا شہزادہ رولز رائس قسم کا ٹانگہ لے کر آگیا۔ ہم پربھات نگر روانہ ہو گئے۔ بہت ہی اچھا ہوا کہ میرا فلموں کا پرانا ساتھی گھر میں موجود نہیں تھا۔ اس کی بیوی تھی، چڈے نے میری بیوی اس کے سپرد کی اور کہا ’’خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بیوی، بیوی کو دیکھ کررنگ پکڑتی ہے، یہ ہم ابھی حاضر ہو کے دیکھیں گے۔ ‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’چلو منٹو، اسٹوڈیو میں تمہارے دوست کو پکڑیں۔ ‘‘ چڈہ کچھ ایسی افراتفری میں مچا دیا کرتا تھا کہ مخالف قوتوں کو سمجھنے سوچنے کا بہت کم موقع ملتا تھا۔ اس نے میرا بازو پکڑا اور باہر لے گیا اور میری بیوی سوچتے ہی رہ گئی۔ ٹانگے میں سوار ہو کر چڈے نے اب کچھ سوچنے کے انداز میں کہا۔ ’’یہ تو ہو گیا۔ اب کیا پروگرام ہے۔ ‘‘ پھر کھکھلا کر ہنسا۔ ’’ممی۔ گریٹ ممی!‘‘ میں اس سے پوچھنے ہی والا تھا، یہ ممی کس تو تنخ آمون کی اولاد ہے، کہ چڈے نے باتوں کا کچھ اییا سلسلہ شروع کردیا کہ میرا استفسار غیر طبعی موت مر گیا۔ تانگہ واپس اس ڈاک بنگلہ نما کوٹھی پر پہنچا جس کا نام سعیدہ کاٹیج تھا، مگر چڈہ اس کو کبیدہ کاٹیج کہتا تھا۔ اس لیے کہ اس میں رہنے والے سب کے سب کبیدہ خاطر رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط تھا جیسے کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ اس کاٹیج میں کافی آدمی رہتے تھے حالانکہ بادی النظر میں یہ جگہ بالکل غیر آباد معلوم ہوتی تھی۔ سب کے سب اسی فلم کمپنیوں میں ملازم جو مہینے کی تنخواہ ہر سہ ماہی کے بعد دیتی تھی اور وہ بھی کئی قسطوں میں۔ ایک ایک کرکے جب اس کے ساکنوں سے میرا تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ سب اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ کوئی چیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر، کوئی اس کا نائب، کوئی نائب در نائب۔ ہر دوسرا، کسی پہلے کا اسسٹنٹ تھا اور اپنی ذاتی فلم کمپنی کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کررہا تھا۔ پوشش اور وضع قطع کے اعتبار سے ہر ایک ہیرو معلوم ہوتا تھا کنٹرول کا زمانہ تھا۔ مگر کسی کے پاس راشن کارڈ نہیں تھا۔ وہ چیزیں بھی جو تھوڑی سی تکلیف کے بعد آسانی سے کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی تھی۔ یہ لوگ بلیک مارکیٹ سے خریدتے تھے۔ پکچر ضرور دیکھتے تھے۔ ریس کا موسم ہو تو ریس کھیلتے تھے ورنہ سٹہ۔ جیتتے شاذونادر تھے، مگر ہارتے ہر روز تھے۔ سعیدہ کاٹیج کی آبادی بہت گنجان تھی۔ چونکہ جگہ کم تھی اس لیے موٹر گراج بھی رہائش کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس میں ایک فیملی رہتی تھی۔ شیریں نام کی ایک عورت تھی جس کا خاوند شاید، محض یکسانیت توڑنے کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نہیں تھا۔ وہ اسی فلم کمپنی میں ملازم تھا مگر موٹر ڈرائیور تھا۔ معلوم نہیں، وہ کب آتا تھا۔ اور کب جاتا تھا، کیونکہ میں نے اس شریف آدمی کو وہاں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شیریں کے بطن سے ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جس کو سعیدہ کا ٹیج کے تمام ساکن فرصت کے اوقات میں پیار کرتے۔ شیریں جو قبول صورت تھی اپنا بیشتر وقت گراج کے اندر گزارتی تھی۔ کاٹیج کا معزز حصہ چڈے اور اس کے دو ساتھیوں کے پاس تھا۔ یہ دونوں بھی ایکٹر تھے، مگر ہیرو نہیں تھے۔ ایک سعید تھا جس کا فلمی نام رنجیت کمار تھا۔ چڈہ کہا کرتا تھا۔ ’’سعیدہ کاٹیج اس خرذات کے نام کی رعایت سے مشہور ہے ورنہ اس کا نام کبیدہ کاٹیج ہی تھا۔ ’’خوش شکل تھا اور بہت کم گو۔ چڈہ کبھی کبھی اسے کچھوا کہا کرتا تھا، اس لیے کہ وہ ہر کام بہت آہستہ ��ہستہ کرتا تھا۔ دوسرے ایکٹر کا نام معلوم نہیں کیا تھا مگر سب اسے غریب نواز کہتے تھے۔ حیدر آباد کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایکٹنگ کے شوق میں یہاں چلا آیا۔ تنخواہ ڈھائی سو روپے ماہوار مقرر تھی۔ ایک برس ہو گیا تھا ملازم ہوئے مگر اس دوران میں اس نے صرف ایک دفعہ ڈھائی سو روپے بطور ایڈوانس لیے تھے، وہ بھی چڈے کے لیے، کہ اس پر ایک بڑے خونخواہ پٹھان کے قرض کی ادائیگی لازم ہو گئی تھی۔ ادبِ لطیف، قسم کی عمارت میں فلمی کہانیاں لکھنا اس کا شُغل تھا۔ کبھی کبھی شعر بھی موزوں کرلیتا تھا۔ کاٹیج کا ہر شخص اس کا مقروض تھا۔ شکیل اور عقیل دو بھائی تھے۔ دونوں کسی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ تھے اور برعکس نام نہند نامِ زنگی باکا فور کی ضرب المثال کے ابطال کی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ بڑے تین، یعنی چڈہ، سعید اور غریب نواز شیریں کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن تینوں اکٹھے گراج میں نہیں جاتے تھے۔ مزاج پرسی کا کوئی وقت بھی مقرر نہیں تھا۔ تینوں جب کاٹیج کے بڑے کمرے میں جمع ہوتے تو ان میں سے ایک اٹھ کر گراج میں چلا جاتا اور کچھ دیر وہاں بیٹھ کر شیریں سے گھریلو معاملات پر بات چیت کرتا رہتا۔ باقی دو اپنے اشغال میں مصروف رہتے۔ جو اسسٹنٹ قسم کے لوگ تھے، وہ شیریں کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ کبھی بازار سے اس کو سودا سلف لا دیا۔ کبھی لانڈری میں اس کے کپڑے دھلنے دے آئے اور کبھی اس کے روتے بچے کو بہلا دیا۔ ان میں سے کبیدہ خاطر کوئی بھی نہ تھا۔ سب کے سب مسرور تھے، شاید اپنی کبیدگی پر، وہ اپنے حالات کی نامساعت کا ذکر بھی کرتے تھے تو بڑے شاداں و فرحاں انداز میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی بہت دلچسپ تھی۔ ہم کاٹیج کے گیٹ میں داخل ہونے والے تھے کہ غریب نواز صاحب باہر آرہے تھے۔ چڈے نے ان کی طرف غور سے دیکھا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے۔ بغیر گنے اس نے کچھ غریب نواز کو دیے اور کہا ’’چار بوتلیں اسکاچ کی چاہئیں۔ کمی آپ پوری کردیجیے گا۔ بیشی ہو تو وہ مجھے واپس مل جائے۔ ‘‘ غریب نواز کے حیدر آبادی ہونٹوں پر گہری سانولی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ چڈہ کھکھلا کر ہنسا اور میری طرف دیکھ کر اس نے غریب نواز سے کہا۔ ’’یہ مسٹر ون ٹو ہیں۔ لیکن ان سے مفصل ملاقات کی اجازت اس وقت نہیں مل سکتی۔ یہ رم پئے ہیں۔ شام کو اسکاچ آجائے تو۔ لیکن آپ جائیے۔ ‘‘ غریب نواز چلا گیا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ چڈے نے ایک زور کی جمائی لی اور رم کی بوتل اٹھائی جو نصف سے زیادہ خالی تھی۔ اس نے روشنی میں مقدار کا سرسری اندازہ کیا اور نوکر کو آواز دی۔ ’’قراقستان کے شہزادے۔ ‘‘ جب وہ نمودار نہ ہوا تو اس نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’زیادہ پی گیا ہے کم بخت!‘‘ یہ گلاس ختم کرکے وہ کچھ فکر مند ہو گیا۔ ’’یار، بھابھی کو تم خواہ مخواہ یہاں لائے۔ خدا کی قسم مجھے اپنے سینے پر ایک بوجھ سا محسوس ہورہا ہے۔ ‘‘ پھر اس نے خود ہی اپنے کو تسکین دی۔ ’’لیکن میرا خیال ہے کہ بور نہیں ہونگی وہاں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہاں وہاں رہ کر وہ میرے قتل کا فوری ارادہ نہیں کرسکتی‘‘ اور میں نے اپنے گلاس میں رم ڈالی جس کا ذائقہ بُسے ہوئے گڑ کی طرح تھا۔ جس کباڑ خانے میں ہم بیٹھے تھے ��س میں سلاخوں والی دو کھڑکیاں تھیں جس سے باہر کا خیر آباد حصہ نظر آتا تھا۔ اِدھر سے کسی نے بآواز بلند چڈہ کا نام لے کر پکارا۔ میں چونک پڑا۔ دیکھا کہ میوزک ڈ ائریکٹر ون کُترے ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کس نسل کا ہے۔ منگولی ہے، حبشی ہے، آریہ ہے، یا کیا بلا ہے۔ کبھی کبھی اس کے کسی خدوخال کو دیکھ کر آدمی کسی نتیجے پرپہنچنے ہی والا ہوتا تھا کہ اس کے تقابل میں کوئی ایسا نقش نظر آجاتا کہ فوراً ہی نئے سرے سے غور کرنا پڑ جاتا تھا۔ ویسے وہ مرہٹہ تھا، مگر شیواجی کی تیکھی ناک کی بجائے اس کے چہرے پر بڑے حیرت ناک طریقے پر مڑی ہوئی چپٹی ناک تھی جو اس کے خیال کے مطابق ان سروں کے لیے بہت ضروری تھی۔ جن کا تعلق براہ راست ناک سے ہوتا ہے۔ اس نے مجھے دیکھا تو چلایا ’’منٹو۔ منٹو سیٹھ؟‘‘ چڈے نے اس سے زیادہ اونچی آواز میں کہا۔ ’’سیٹھ کی ایسی تیسی۔ چل اندر آ‘‘ وہ فوراً اندر آگیا۔ اپنی جیب سے اس نے ہنستے ہوئے رم کی ایک بوتل نکالی اور تپائی پر رکھ دی۔ ’’میں سالا اُدھر ممی کے پاس گیا۔ وہ بولا۔ تمہارے فرینڈ آئے لا۔ میں بولا سالا یہ فرینڈ کون ہونے کو سکتا ہے۔ سالا مالوم نہ تھا منٹو ہے۔ ‘‘ چڈے نے ون کُترے کے کدو ایسے سر پر ایک دھول جمائی۔ ’’اب چیک کر سالے کے۔ تو رم لے آیا۔ بس ٹھیک ہے۔ ‘‘ ون کترے نے اپنا سر سہلایا اور میرا خالی گلاس اٹھا کر اپنے لیے پیگ تیار کیا۔ ’’منٹو۔ یہ سالا آج ملتے ہی کہنے لگا۔ آج پینے کو جی چاہتا ہے۔ میں ایک دم کڑکا۔ سوچا کیا کروں۔ ‘‘ چڈے نے ایک اور دھپا اس کے سر پر جمایا۔ ’’بیٹھ بے، جیسے تو نے کچھ سوچا ہی ہو گا۔ ‘‘ ’’سوچا نہیں تو سالا یہ اتنی بڑی باٹلی کہاں سے آیا۔ تیرے باپ نے دیا مجھ کو۔ ‘‘ ون کترے نے ایک ہی جرعے میں رم ختم کردی۔ چڈے نے اُس کی بات سنی ان سنی کردی اور اس سے پوچھا۔ ’’تو یہ تو بتا کہ ممی کیا بولی؟۔ بولی تھی؟۔ موذیل کب آئے گی؟۔ ارے ہاں۔ وہ پلیٹنم بلونڈ!‘‘ ون کترے نے جواب میں کچھ کہنا چاہا مگر چڈے نے میرا بازو پکڑ کر کہنا شروع کردیا۔ ’’منٹو۔ خدا کی قسم کیا چیز ہے۔ سنا کرتے تھے کہ ایک شے پلیٹنم بلونڈ بھی ہوتی ہے۔ مگر دیکھنے کا اتفاق کل ہوا۔ بال ہیں، جیسے چاندی کے معین مہین تار۔ گریٹ۔ خدا کی قسم منٹو بہت گریٹ۔ ممی زندہ باد!‘‘ پھر اس نے قہر آلود نگاہوں سے ون کترے کی طرف دیکھا اور کڑک کر کہا۔ ’’کن کترے کے بچے۔ نعرہ کیوں نہیں لگاتا۔ ممی زندہ باد!‘‘ چڈے اور ون کترے دونوں نے مل کر ’’ممی زندہ باد‘‘ کے کئی نعرے لگائے۔ اس کے بعد ون کترے نے چڈے کے سوالوں کا پھر جواب دینا چاہا مگر اس نے اسے خاموش کردیا۔ ’’چھوڑو یار۔ میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ اس وقت یہ سوچ رہا ہوں کہ عام طور پر معشوق کے بال سیاہ ہوتے ہیں۔ جنھیں کالی گھٹا سے تشبیہہ دی جاتی رہی ہے۔ مگر یہاں کچھ اور ہی سلسلہ ہو گیا ہے۔ ‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’منٹو۔ بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے۔ اس کے بال چاندی کے تاروں جیسے ہیں۔ چاندی کا رنگ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم نہیں پلیٹنم کا رنگ کیسا ہوتا ہے، کیونکہ میں نے ابھی تک یہ دھات نہیں دیکھی۔ کچھ عجیب ہی سا رنگ ہے۔ فولاد اور چاندی دونوں کو ملا دیا جائے۔ ‘‘ ون کترے نے دوسرا پیگ ختم کیا۔ ’’اور اس میں تھوڑی سی تھری ایکس رم مکس کردی جائے۔ ‘‘ چڈے نے بھنا کر اس کو ایک فربہ اندام گ��لی دی۔ ’’بکواس نہ کر۔ ‘‘ پھر اس نے بڑی رحم انگیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ’’یار۔ میں واقعی جذباتی ہو گیا ہوں۔ ہاں۔ وہ رنگ۔ خدا کی قسم لاجواب رنگ ہے۔ وہ تم نے دیکھا ہے۔ وہ جو مچھلیوں کے پیٹ پر ہوتا ہے۔ نہیں نہیں ہر جگہ ہوتا ہے۔ پومغریٹ مچھلی۔ اس کے وہ کیا ہوتے ہیں؟۔ نہیں نہیں۔ سانپوں کے۔ وہ ننھے ننھے کھپرے۔ ہاں کھپرے۔ بس ان کا رنگ۔ کھپرے۔ یہ لفظ مجھے ایک ہند ستوڑے نے بتایا تھا۔ اتنی خوبصورت چیز اور ایسا واہیات نام۔ پنجابی میں ہم انھیں چانے کہتے ہیں۔ اس لفاظ میں چنچنہاہٹ ہے۔ وہی۔ بالکل وہی جو اس کے بالوں میں ہے۔ لٹیں ننھی ننھی سنپولیاں معلوم ہوتی ہیں جو لوٹ لگا رہی ہوں۔ ‘‘ وہ ایک دم اٹھا۔ ’’سنپولیوں کی ایسی تیسی، میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ ‘‘ ون کترے نے بڑے بھولے انداز میں پوچھا۔ ’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ چڈے نے جواب دیا۔ ’’سنٹی منٹل۔ لیکن تو کیا سمجھے گا، بالا جی باجی راؤ اور نانا فرنویس کی اولاد۔ ‘‘ ون کترے نے اپنے لیے ایک اور پیگ بنایا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’یہ سالا چڈہ سمجھتا ہے، میں انگلش نہیں سمجھتا ہوں۔ میٹری کولیٹ ہوں۔ سالا میرا باپ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس سے۔ ‘‘ چڈے نے چڑ کر کہا۔ ’’اس نے تجھے تان سین بنا دیا۔ تیری ناک مروڑ دی کہ نکوڑے سر آسانی سے تیرے اندر سے نکل سکیں۔ بچپن ہی میں اس نے تجھے دھرپدگاناسکھا دیا تھا۔ اور دودھ پینے کے لیے تو میاں کی ٹوڑی میں رویا کرتا تھا اور پیشاب کرتے وقت اڑانہ میں۔ اور تو نے پہلی بات پٹ ویپکی میں کی تھی۔ اور تیرا باپ۔ جگت استاد تھا۔ بجوباؤرے کے بھی کان کاٹتا تھا۔ اور تو آج اس کے کان کاٹتا ہے، اسی لیے تیرا نام کن کترے!‘‘ اتنا کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’منٹو۔ یہ سالا جب بھی پیتا ہے۔ اپنے باپ کی تعریفیں شروع کردیتا ہے۔ وہ اس سے مح��ت کرتا تھا تو مجھ پر اس نے کیا احسان کیا اور اس نے اسے میٹریکولیٹ بنا دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی بی اے کی ڈگری پھاڑ کے پھینک دوں۔ ‘‘ ون کترے نے اس بوچھاڑ کی مدافعت کرنا چاہی مگر چڈے نے اُس کو وہیں دبا دیا۔ ’’چپ رہ۔ میں کہہ چکا ہوں کہ سنٹی مینٹل ہو گیا ہوں۔ ہاں، وہ رنگ۔ پومفریٹ مچھلی۔ نہیں نہیں۔ سانپ کے ننھے ننھے کھپرے۔ بس انہی کا رنگ۔ ممی نے خدا معلوم اپنی بین پر کونسا راگ بجا کر اس ناگن کو باہر نکالا؟‘‘ ون کترے سوچنے لگا۔ ’’پیٹی منگاؤ، میں بجاتا ہوں۔ ‘‘ چڈہ کھکھلا کر ہنسنے لگا۔ ’’بیٹھ بے میٹری کولیٹ کے چاکولیٹ۔ ‘‘ اس نے رم کی بوتل میں سے رم کے باقیات اپنے گلاس میں انڈیلے اور مجھ سے کہا۔ ’’منٹو، اگر یہ پلٹینم بلونڈ نہ پٹی تو مسٹر چڈہ ہمالیہ پہاڑ کی کسی اونچی چوٹی پر دھونی رما کر بیٹھ جائے گا۔ ‘‘ اور اس نے گلاس خالی کردیا۔ ون کترے نے اپنی لائی ہوئی بوتل کھولنی شروع کردی۔ ’’منٹو، مُلگی ایک چانگلی ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’دیکھ لیں گے۔ ‘‘ ’’آج ہی۔ آج رات میں ایک پارٹی دے رہا ہوں۔ یہ بہت ہی اچھا ہوا کہ تم آگئے اور شری ایک سو آٹھ مہتا جی نے تمہاری وجہ سے وہ ایڈوانس دے دیا، ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔ آج کی رات۔ آج کی رات۔ ‘‘ چڈے نے بڑے بھونڈے سروں میں گانا شروع کردیا : ’’آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ!‘‘ ون کترے بیچارہ اس کی اس زیادتی پر صدائے احتجاج بلند کرنے ہی والا تھا کہ غریب نواز اور رنجیت کمار آگئے۔ دونوں کے پاس اسکاچ کی دو دو بوتلیں تھیں۔ یہ انھوں نے میز پر رکھیں۔ رنجیت کمار سے میرے اچھے خاصے مراسم تھے، مگر بے تکلف نہیں۔ اس لیے ہم دونوں نے تھوڑی سی، آپ کب آئے، آج ہی آیا، ایسی رسمی گفتگو کی اور گلاس ٹکرا کر پینے میں مشغول ہو گئے۔ چڈہ واقعی بہت جذباتی ہو گیا تھا۔ ہر بات میں اس پلیٹنم بلونڈ کا ذکر لے آتا تھا۔ رنجیت کمار دوسری بوتل کا چوتھائی حصہ چڑھا گیا تھا۔ غریب نواز نے اسکاچ کے تین پیگ پئے تھے۔ نشے کے معاملے میں ان سب کی سطح اب ایک ایسی تھی۔ میں چونکہ زیادہ پینے کا عادی ہوں اس لیے میرے جذبات معتدل تھے۔ میں نے ان کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ وہ چاروں اس نئی لڑکی پربہت بری طرح فریفتہ تھے۔ جو ممی نے کہیں سے پیدا کی تھی۔ اس نایاب دانے کا نام فی لس تھا۔ پونے میں کوئی ہیئر ڈریسنگ سیلون تھا جہاں وہ ملازم تھی۔ اس کے ساتھ عام طور پر ایک ہیجڑہ نما لڑکا رہتا تھا۔ لڑکی کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب تھی۔ غریب نواز تو یہاں تک اس پر گرم تھا کہ وہ حیدر آباد میں اپنے حصے کی جائیداد بیچ کر بھی اس داؤں پر لگانے کے لیے تیار تھا۔ چڈے کے پاس ترپ کا صرف ایک پتا تھا، اپنا قبول صورت ہونا۔ ون کترے کا بزعمِ خود یہ خیال تھاکہ اس کی پیٹی سن کر وہ پری ضرور شیشے میں اتر آئے گی۔ اور رنجیت کمار جارحانہ اقدام ہی کو کارگر سمجھتا تھا۔ لیکن سب آخر میں یہی سوچتے تھے کہ دیکھیے ممی کسی پر قربان ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس پلیٹنم بلونڈ فی لس کو وہ عورت جسے میں نے چڈے کے ساتھ ٹانگے میں دیکھا تھا، کسی کے بھی حوالے کرسکتی تھی۔ فی لس کی باتیں کرتے کرتے چڈے نے اچانک اپنی گھڑی دیکھی اور مجھ سے کہا ’’جہنم میں جائے یہ لونڈیا۔ چلو یار۔ بھابی وہاں کباب ہو رہی ہو گی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ میں کہیں وہاں بھی سنٹی مینٹل نہ ہو جاؤں۔ خیر۔ تم مجھے سنبھال لینا۔ ‘‘ اپنے گلاس کے چند آخری قطرے حلق میں ٹپکا کر اس نے نوکر کو آواز دی۔ ’’ممیوں کے ملک مصر کے شہزادے۔ ‘‘ ممیوں کے ملک مصر کا شہزادہ آنکھیں ملتا نمودار ہوا، جیسے کسی نے اس کو صدیوں کے بعد کھود کھاد کے باہر نکالا ہے۔ چڈے نے اس کے چہرے پر رم کے چھینٹے مارے اور کہا۔ ’’دو عدد ٹانگے لاؤ۔ جو مصری رتھ معلوم ہوں۔ ‘‘ ٹانگے آگئے۔ ہم سب ان پر لد کر پربھات نگر روانہ ہوئے۔ میرا پرانا، فلموں کا ساتھی ہریش گھر پر موجود تھا۔ اس دور دراز جگہ پر بھی اس نے میری بیوی کی خاطر مدارت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ چڈے نے آنکھ کے اشارے سے اس کو سارا معاملہ سمجھا دیا تھا، چنانچہ یہ بہت کارآمد ثابت ہوا۔ میری بیوی نے غیض و غضب کا اظہار نہ کیا۔ اس کا وقت وہاں کچھ اچھا ہی کٹا تھا۔ ہریش نے جو عورتوں کے نفسیات کا ماہر تھا۔ بڑی پرلطف باتیں کیں، اور آخر میں میری بیوی سے درخواست کی کہ وہ اس کی شوٹنگ دیکھنے چلے جو اس روز ہونے والی تھی میری بیوی نے پوچھا۔ ’’کوئی گانا فلمارہے ہیں آپ؟‘‘ ہریش نے جواب دیا۔ ’’جی نہیں۔ وہ کل کا پروگرام ہے۔ میرا خیال ہے آپ کل چلیے گا۔ ‘‘ ہریش کی بیوی شوٹنگ دیکھ دیکھ کر اور دکھا دکھا کر عاجز آئی ہوئی تھی۔ اس نے فوراً ہی میری بیوی سے کہا۔ ’’ہاں کل ٹھیک رہے گا۔ آج تو انھیں سفر کی تھکن بھی ہے۔ ‘‘ ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہریش نے پھر کچھ دیر پُر لطف باتیں کیں۔ آخر میں مجھ سے کہا۔ ’’چلو یار۔ تم چلو میرے ساتھ‘‘ اور میرے تین ساتھیوں کی طرف دیکھا ’’ان کو چھوڑو۔ سیٹھ صاحب تمہاری کہانی سننا چاہتے ہیں۔ ‘‘ میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور ہریش سے کہا ’’ان سے اجازت لے لو۔ ‘‘ میری سادہ لوح بیوی جال میں پھنس چکی تھی۔ اس نے ہریش سے کہا۔ ’’میں نے بمبئے سے چلتے وقت ان سے کہا بھی تھا کہ اپنا ڈوکیومنٹ کیس ساتھ لے چلیے، پر انھوں نے کہا کوئی ضرورت نہیں۔ اب یہ کہانی کیا سنائیں گے۔ ‘‘ ہریش نے کہا۔ ’’زبانی سنا دے گا‘‘ پھر اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہے کہ ہاں کہو جلدی۔ میں نے اطمینان سے کہا۔ ’’ہاں ایسا ہو سکتا ہے!‘‘ چڈے نے اس ڈرامے میں تکمیلی ٹچ دیا۔ ’’تو بھئی ہم چلتے ہیں۔ ‘‘ اور وہ تینوں اٹھ کر سلام نمستے کرکے چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اور ہریش نکلے۔ پربھات نگر کے باہر ٹانگے کھڑے تھے۔ چڈے نے ہمیں دیکھا تو زور کا نعرہ بلند کیا۔ ’’راجہ ہریش چندر زندہ باد۔ ‘‘ ہریش کے سوا ہم سب ممی کے گھر روانہ ہو گئے۔ اس کو اپنی ایک سہیلی سے ملنے جانا تھا۔ یہ بھی ایک کاٹیج تھی۔ شکل و صورت اور ساخت کے اعتبار سے سعیدہ کاٹیج جیسی مگر بہت صاف ستھری جس سے ممی کے سلیقے اور قرینے کا پتا چلتا تھا۔ فرنیچر معمولی تھا مگر جو چیز جہاں تھی سجی ہوئی تھی۔ پربھات نگر سے چلتے وقت میں نے سوچا تھا کوئی قحبہ خانہ ہو گا، مگر اس گھر کی کسی چیز سے بھی بصارت کو ایسا شک نہیں ہوتا تھا۔ وہ ویسا ہی شریفانہ تھا جیسا کہ ایک اوسط درجے کے عیسائی کا ہوتا ہے۔ لیکن ممی کی عمر کے مقابلے میں وہ جوان جوان دکھائی دیتا تھا۔ اس پر وہ میک اپ نہیں تھا جو میں نے ممی کے جھریوں والے چہرے پر دیکھا تھا۔ جب ممی ڈرائنگ روم میں آئی، تو میں نے سوچا کہ گردوپیش شفقت نے اس کے گال تھپتھپائے اور کہا ’’تم فکر نہ کرو۔ میں ابھی انتظام کرتی ہوں۔ ‘‘ وہ انتظام کرنے باہر چلی گئی۔ چڈے نے خوشی کا ایک اور نعرہ بلند کیا اور ون کترے سے کہا۔ ’’جنرل ون کترے۔ جاؤ ہیڈ کوارٹرز سے ساری توپیں لے آؤ۔ ‘‘ ون کترے نے سیلوٹ کیا اور حکم کی تعمیل کے لیے چلا گیا۔ سعیدہ کاٹیج بالکل پاس تھی، دس منٹ کے اندر اندر وہ بوتلیں لے کر واپس آگیا۔ ساتھ اس کے چڈے کا نوکر تھا۔ چڈے نے اس کو دیکھا تو اُس کا استقبال کیا۔ ’’آؤ، آؤ۔ میرے کوہ قاف کے شہزادے۔ وہ۔ وہ سانپ کے کھپڑوں جیسے رنگ کے بالوں والی لونڈیا آرہی ہے۔ تم بھی قسمت آزمائی کرلینا۔ ‘‘ رنجیت کمار اور غریب نواز دونوں کو چڈے کی یہ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے، والی بات بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ یہ چڈے کی بہت بے ہودگی ہے۔ اس بیہودگی کو انھوں نے بہت محسوس کیا تھا۔ چڈہ حسبِ عادت اپنی ہانکتا رہا اور وہ خاموش ایک کونے میں بیٹھے آہستہ آہستہ رم پی کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے۔ میں ممی کے متعلق سوچتا رہا۔ ڈرائنگ روم میں، غریب نواز، رنجیت کمار اور چڈے بیٹھے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کی ماں باہر کھلونے لینے گئی ہے۔ یہ سب منتظر ہیں۔ چڈہ مطمئن ہے کہ سب سے بڑھیا اور اچھا کھلونا اسے ملے گا، اس لیے کہ وہ اپنی ماں کا چہیتا ہے۔ باقی دو کا غم چونکہ ایک جیسا تھا اس لیے وہ ایک دوسرے کے مونس بن گئے تھے۔ شراب اس ماحول میں دودھ معلوم ہوتی تھی اور وہ پلیٹنم بلونڈ۔ اس کا تصور ایک چھوٹی سی گڑیا کے مانند دماغ میں آتا تھا۔ ہر فضا، ہر ماحول کی اپنی موسیقی ہوتی ہے۔ اس وقت جو موسیقی میرے دل کے کانوں تک پہنچ رہی تھی، اس میں کوئی سُر اشتعال انگیز نہیں تھا۔ ہر شے، ماں اور اس کے بچے اور ان کے باہمی رشتے کی طرح قابلِ فہم اور یقینی تھی۔ میں نے جب اس کو تانگے میں چڈے کے ساتھ دیکھا تھا تو میری جمالیاتی حس کو صدمہ پہنچا تھا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے دل میں ان دونوں کے متعلق واہیات خیال پیدا ہوئے۔ لیکن یہ چیز مجھے بار بار ستا رہی تھی کہ وہ اتنا شوخ میک اپ کیوں کرتی ہے جو اس کی جھریوں کی توہین ہے۔ اس ممتا کی تضحیک ہے جو اس کے دل میں چڈے، غریب نواز اور ون کترے کے لیے موجود ہے۔ اور خدا معلوم اور کس کس کے لیے۔ باتوں باتوں میں چڈے سے میں نے پوچھا۔ ’’یار یہ تو بتاؤ تمہاری ممی اتنا شوخ میک اپ کیوں کرتی ہے؟‘‘ ’’اس لیے کہ دنیا ہر شوخ چیز کو پسند کرتی ہے۔ تمہارے اور میرے جیسے الو اس دنیا میں بہت کم بستے ہیں جو مدھم سر اور مدھم رنگ پسند کرتے ہیں۔ جو جوانی کو بچپن کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے اور۔ اور جو بڑھاپے پر جوانی کا ملمع پسند نہیں کرتے۔ ہم جو خود کو آرٹسٹ کہتے ہیں۔ اُلّو کے پٹھے ہیں۔ میں تمہیں ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ بیساکھی کا میلہ تھا۔ تمہارے امرت سر میں۔ ایک صحت مند نوجوان نے۔ خالص دودھ اور مکھن پر پلے ہوئے جوان نے، جس کی نئی جوتی اس کی لاٹھی پر بازی گری کررہی تھی اوپر ایک کوٹھے کی طرف دیکھا اور نہایت واہیات رنگوں میں لپی تپی ایک سیاہ فام ٹکھیائی کی طرف دیکھا، جس کی تیل میں چپڑی ہوئی ببریاں، اس کے ماتھے پر بڑے بدنما طریقے پر جمی ہوئی تھیں اور اپنے ساتھی کی پسلیوں میں ٹہوکا دے کر کہا۔ اوئے لہنا سیاں۔ ویخ اوئے اوپر ویخ۔ اسی تے پنڈوچ مجھاں ای۔ ‘‘ آخری لفظ وہ خدا معلوم کیوں گول کرلیا، حالانکہ وہ شائستگی کا بالکل قال نہیں تھا۔ کھکھلا کر ہنسنے لگا اور میرے گلاس میں رم ڈال کر بولا۔ ’’اس جاٹ کے لیے وہ چڑیل ہی اس وقت کوہ قاف کی پری تھی۔ اور اس کے گاؤں کی حسین و جمیل مٹیاریں، بے ڈول بھینسیں۔ ہم سب چغد ہیں۔ درمیانے درجے کے۔ اس لیے کہ اس دنیا میں کوئی چیز اول درجے کی نہیں۔ تیسرے درجے کی ہے یا درمیانے درجے کی۔ لیکن۔ لیکن فی لس۔ خاص الخاص درجے کی چیز ہے۔ وہ سانپ کے کھپروں۔ ‘‘ ون کترے نے اپنا گلاس اٹھا کر چڈے کے سر پر انڈیل دیا۔ ’’کھپرے۔ کھپرے۔ تمہارا مستک پھر گیا ہے۔ ‘‘ چڈے نے ماتھے پر سے رَم کے ٹپکتے ہوئے قطرے زبان سے چاٹنے شروع کردیے اور ون کترے سے کہا۔ ’’لے اب سنا۔ تیرا باپ سالا تجھ سے کتنی محبت کرتا تھا۔ میرا دماغ اب کافی ٹھنڈا ہو گیا ہے!‘‘ وَن کُترے بہت سنجیدہ ہو کر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’بائی گاڈ۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ میں فٹین ائرز کا تھا کہ اس نے میری شادی بنا دی۔ ‘‘ چڈہ زور سے ہنسا۔ ’’تمہیں کارٹون بنا دیا اس سالے نے۔ بھگوان اُسے سورگ میں کیریل کی پیٹی دے کہ وہاں بھی اسے بجا بجا کر تمہاری شادی کے لیے کو��ی خوبصورت حور ڈھونڈتا رہے۔ ‘‘ ون کترے اور بھی سنجیدہ ہو گیا۔ ’’منٹو۔ میں جھوٹ نہیں کہتا۔ میری وائف ایک دم بیوٹی فل ہے۔ ہماری فیملی میں۔ ‘‘ ’’تمہاری فیملی کی ایسی تیسی۔ فی لس کی بات کرو۔ اُس سے زیادہ اور کوئی خوبصورت نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ چڈے نے غریب نواز اور رنجیت کمار کی طرف دیکھا جو کونے میں بیٹھے فی لس کے حسن کے متعلق اپنی اپنی رائے کا اظہار ایک دوسرے سے کرنے والے تھے۔ ’’گن پاؤڈر پلوٹ کے بانیو۔ سن لو تمہاری کوئی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ میدان چڈے کے ہاتھ رہے گا۔ کیوں ویلز کے شہزادے؟‘‘ ویلز کا شہزادہ رم کی خالی ہوتی ہوئی بوتل کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ چڈے نے قہقہہ لگایا اور اس کو آدھا گلاس بھر کے دے دیا۔ غریب نواز اور رنجیت کمار ایک دوسرے سے فی لس کے بارے میں گھل مل کے باتیں تو کررہے تھے مگر اپنے دماغ میں وہ اسے حاصل کرنے کی مختلف اسکیمیں علیحدہ طور پر بنا رہے تھے۔ یہ ان کے طرزِ گفتگو سے صاف عیاں تھا۔ ڈرائنگ روم میں اب بجلی کے بلب روشن تھے، کیونکہ شام گہری ہو چلی تھی۔ چڈہ مجھ سے بمبئے کی فلم انڈسٹری کے تازہ حالات سن رہا تھا کہ باہر برآمدے میں ممی کی تیز تیز آواز سنائی دی۔ چڈے نے نعرہ بلند کیا اور باہر چلا گیا۔ غریب نواز نے رنجیت کمار کی طرف اور رنجیت کمار نے غریب نواز کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا، پھر دونوں دروازے کی جانب دیکھنے لگے۔ ممی چہکتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ چار پانچ اینگلو انڈین لڑکیاں تھیں۔ مختلف قد و قامت اور خطوط والوان کی۔ پولی، ڈولی، کِٹی، ایلما اور تھیلما۔ اور وہ ہیجڑا نما لڑکا۔ اس کو چڈہ سسِی کہہ کر پکارتا تھا۔ فی لس سب سے آخر میں نمودار ہوئی اور وہ بھی چڈے کے ساتھ۔ اس کا ایک بازو اس پلیٹنم بلونڈ کی پتلی کمر میں حمائل تھا۔ میں نے غریب نواز اور رنجیت کمار کا رد عمل نوٹ کیا۔ ان کوچڈے کی یہ نمائشی فتحمندانہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔ لڑکیوں کے نازل ہوتے ہی ایک شور برپا ہو گیا۔ ایک دم اتنی انگریزی برسی کہ ون کترے میٹری کولیشن امتحان میں کئی بار فیل ہوا۔ مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور برابر بولتا رہا۔ جب اس سے کسی نے التفات نہ برتا تو وہ ایلما کی بڑی بہن تھیلما کے ساتھ ایک صوفے پر الگ بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا کہ اس نے ہندوستانی ڈانس کے اور کتنے نئے توڑے سیکھے ہیں۔ وہ اِدھر دھانی ناکت اور ناتھئی تھئی کہ ون، ٹو، تھری بنا بنا کر اس کو توڑے بتا رہا تھا، ادھر چڈہ باقی لڑکیوں کے جھرمٹ میں انگریزی کے ننگے ننگے لمرک سنا رہا تھا۔ جو اس کو ہزاروں کی تعداد میں زبانی یاد تھے۔ ممی سوڈے کی بوتلیں اور گزک کا سامان منگوا رہی تھی۔ رنجیت کمار سگریٹ کے کش لگا کر ٹکٹکی باندھے فی لس کی طرف دیکھ رہا تھا اور غریب نواز ممی سے بار بار کہتا تھا کہ روپے کم ہوں تو وہ اس سے لے لے۔ اسکاچ کھلی اور پہلا دور شروع ہوا۔ فی لس کو جب شام ہونے کے لیے کہا گیا تو اس نے اپنے پلیٹمنی بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر انکار کردیا کہ وہ وسکی نہیں پیا کرتی۔ سب نے اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ چڈے نے بددلی کا اظہار کیا تو ممی نے فی لس کے لیے ہلکا سا مشروب تیار کیا اور گلاس اس کے ہونٹوں کے ساتھ لگا کر بڑے پیار سے کہا۔ ’’بہادر لڑکی بنو اور پی جاؤ۔ ‘‘ فی لس انکار نہ کرسکی۔ چڈہ خوش ہو گیا۔ اور اس نے اسی خوشی میں بیس پچیس اور لمرک سنائے۔ سب مزے لیتے رہے۔ میں نے سوچا�� عریانی سے تنگ آکر انسان نے سترپوشی اختیار کی ہو گی، یہی وجہ ہے کہ اب وہ سترپوشی سے اکتا کر کبھی کبھی عریانی کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ شائستگی کا رد عمل یقیناً ناشائستگی ہے۔ اس فرار کا قطعی طور پر ایک دلکشا پہلو بھی ہے۔ آدمی کو اس سے ایک مسلسل ایک آہنگی کی کوفت سے چند گھڑیوں کے لیے نجات مل جاتی ہے۔ میں نے ممی کی طرف دیکھا جو بہت ہشاش بشاش جوان لڑکیوں میں گھلی ملی چڈے کے ننگے ننگے لمرک سن کر ہنس رہی تھی اور قہقہے لگا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہی واہیات میک اپ تھا۔ اس کے نیچے اس کی جھریاں صاف نظر آرہی تھیں مگر وہ بھی مسرور تھیں۔ میں نے سوچا، آخر لوگ کیوں فرار کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ فرار جو میری آنکھوں کے سامنے تھے، اس کا ظاہر گو بدنما تھا، لیکن باطن اس کا بے حد خوبصورت تھا۔ اس پر کوئی بناؤ سنگھار، کوئی غازہ، کوئی ابٹنا نہیں تھا۔ پولی تھی، وہ ایک کونے میں رنجیت کمار کے ساتھ کھڑی، اپنے نئے فراک کے بارے میں بات چیت کررہی تھی اور اسے بتا رہی تھی کہ صرف اپنی ہوشیاری سے اس نے بڑے سستے داموں پر ایسی عمدہ چیز تیار کرالی ہے۔ دو ٹکڑے تھے جو بظاہر بالکل بیکار معلوم ہوتے تھے، مگر اب وہ ایک خوبصورت پوشاک میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اور رنجیت کمار بڑے خلوص کے ساتھ اس کو دو نئے ڈریس بنوا دینے کا وعدہ کررہا تھا۔ حالانکہ اسے فلم کمپنی سے اتنے روپے یک مشت ملنے کی ہرگز ہرگز امید نہیں تھی۔ ڈولی تھی وہ غریب نواز سے کچھ قرض مانگنے کی کوشش کررہی تھی اور اس کو یقین دلا رہی تھی کہ دفتر سے تنخواہ ملنے پر وہ یہ قرض ضرور ادا کردے گی۔ غریب نواز کو قطعی طور پر معلوم تھا کہ وہ یہ روپیہ حسب معمول کبھی واپس نہیں دے گی مگر وہ اس کے وعدے پر اعتبار کیے جارہا تھا۔ تھیلما، ون کترے سے تانڈیو ناچ کے بڑے مشکل توڑے سیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ ون کترے کو معلوم تھا کہ ساری عمر اُس کے پیر کبھی ان کے بول ادا نہیں کر سکیں گے، مگر وہ اس کو بتائے جارہا تھا اور تھیلما بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ بیکار اپنا اورون کترے کا وقت ضائع کررہی ہے، مگر بڑے شوق اور انہماک سے سابق یاد کررہی تھی۔ ایلما اور کٹی دونوں پئے جارہی تھیں اور آپس میں کسی آٹوی کی بات کررہی تھیں جس نے پچھلی ریس میں ان دونوں سے خدا معلوم کب کا بدلہ لینے کی خاطر غلط ٹپ دی تھی۔ وہ چڈہ فی لس کے سانپ کے کھپرے ایسے رنگ کے بالوں کو پگھلے ہوئے سونے کی رنگ کی اسکاچ میں ملا ملا کر پی رہا تھا۔ فی لس کا ہیجڑہ نما دوست بار بار جیب سے کنگھی نکالتا تھا اور اپنے بال سنوارتا تھا۔ ممی کبھی اس سے بات کرتی تھی، کبھی اُس سے، کبھی سوڈا کھلواتی تھی۔ کبھی ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے اٹھواتی تھی۔ اس کی نگاہ سب پر تھی۔ اس بلی کی طرح، جو بظاہر آنکھیں بند کیے سستاتی ہے، مگر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پانچوں بچے کہاں کہاں ہیں اور کیا کیا شرارت کررہے ہیں۔ اس دلچسپ تصویر میں کون سا رنگ، کون سا خط غلط تھا؟۔ ممی کا وہ بھڑکیلا اور شوخ میک اپ بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس تصویر کا ایک ضروری جزو ہے۔ غالب کہتا ہے ؂ قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟۔ قیدِ حیات اور بندِ غم جب اصلاً ایک ہیں تو یہ کیا غرض ہے کہ آدمی موت سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس نجات کے لیے کون ملک الموت کا انتظار کرے۔ کیوں آدمی چند لمحات کے لیے خود فریبی کے دلچسپ کھیل میں حصہ نہ لے۔ ممی سب کی تعریف میں رطب اللسان تھی۔ اس کے پہلو میں ایسا دل تھا۔ جس میں ان سب کے لیے ممتا تھی۔ میں نے سوچا، شاید اس لیے اس نے اپنے چہرے پر رنگ مل لیا ہے کہ لوگوں کو اس کی اصلیت معلوم نہ ہو۔ اس میں شاید اتنی جسمانی قوت نہیں تھی کہ وہ ہر ایک کی ماں بن سکتی۔ اس نے اپنی شفقت اور محبت کے لیے چند آدمی چُن لیے تھے اور باقی ساری دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔ ممی کو معلوم نہیں تھا۔ چڈہ ایک تکڑا پیگ فی لس کو پلا چکا تھا۔ چوری چھپے نہیں سب کے سامنے، مگر ممی اس وقت اندر باورچی خانے میں پوٹیٹو چپس تل رہی تھی۔ فی لس نشے میں تھی، ہلکے ہلکے سرور میں۔ جس طرح اس کے پالش کیے ہوئے فولاد کے رنگ کے بال آہستہ آہستہ لہراتے تھے، اسی طرح وہ خود بھی لہراتی تھی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ون کترے، تھیما کو توڑے سکھا سکھا کر اب اسے بتا رہا تھا کہ اس کا باپ سالا اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ چائلڈ ہڈ میں اس نے اس کی شادی بنا دی تھی۔ اسکی وائف بہت بیوٹی فل ہے۔ اور غریب نواز، ڈولی کو قرض دے کر بھول بھی چکا تھا۔ رنجیت کمار، پولی کو اپنے ساتھ کہیں باہر لے گیا تھا۔ ایلما اور کٹی دونوں جہان بھر کی باتیں کرکے اب تھک گئی تھیں اور آرام کرنا چاہتی تھیں۔ تپائی کے اردگرد’فی لس‘ اس کا ہیجڑا نما ساتھی اور ممی بیٹھے تھے۔ چڈہ اب جذباتی نہیں تھا۔ فی لس اس کے پہلو میں بیٹھی تھی جس نے پہلی دفعہ شراب کا سرور چکھا تھا۔ اس کو حاصل کرنے کا عزم اس کی آنکھوں میں صاف موجود تھا۔ ممی اس سے غافل نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد فی لس کا ہیجڑہ نما دوست اٹھ کر صوفے پر دراز ہو گیا اور اپنے بالوں میں کنگھی کرتے کرتے سو گیا۔ غریب نواز اور ایلما اٹھ کر کہیں چلے گئے۔ ایلما اور کٹی نے آپس میں کسی مارگرٹ کے متعلق باتیں کرتے ہوئے ممی سے رخصت لی اور چلی گئیں۔ ون کترے نے آخری بار اپنی بیوی کی خوبصورتی کی تعریف کی اور فی لس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا، پھر تھیلما کی طرف جو اس کے پاس بیٹھی تھی اور اس کوبازو سے پکڑ کر چاند دکھانے کے لیے باہر میدان میں لے گیا۔ ایک دم جانے کیا ہوا کہ چڈے اور ممی میں گرم گرم باتیں شروع ہو گئیں۔ چڈے کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ وہ ایک ناخلف بچے کی طرح ممی سے بدزبانی کرنے لگا۔ فی لس نے دونوں میں مصالحت کی مہین مہین کوشش کی، مگر چڈا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔ وہ فی لس کو اپنے ساتھ سعیدہ کاٹیج میں لے جانا چاہتا تھا۔ ممی اس کے خلاف تھی۔ وہ اس کو بہت دیر تک سمجھاتی رہی کہ وہ اس ارادے سے باز آئے، مگر وہ اس کے لیے نہیں تھا۔ وہ بار بار ممی سے کہہ رہا تھا۔ ’’تم دیوانی ہو گئی ہو۔ بوڑھی دلالہ۔ فی لس میری ہے۔ پوچھ لو اس سے‘‘ ممی نے بہت دیر تک اس کی گالیاں سنیں، آخر میں بڑے سمجھانے والے انداز میں اس سے کہا۔ ’’چڈہ، مائی سن۔ تم کیوں نہیں سمجھتے۔ شی از ینگ۔ شی از ویری ینگ!‘‘ اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ ایک التجا تھی، ایک سرزنش تھی، ایک بڑی بھیانک تصویر تھی، مگر چڈہ بالکل نہ سمجھا۔ اس وقت اس کے پیش نظر صرف فی لس اور اس کا حصول تھا۔ میں نے فی لس کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی دفعہ بڑی شدت سے محسوس کیا کہ وہ بہت چھوٹی عمر کی تھی۔ بمشکل پندرہ برس کی۔ اس کا سفید چہرہ نقرئی بادلوں میں گھرا ہوا بارش کے پہلے قطرے کی طرح لرز رہا تھا۔ چڈے نے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فلموں کے ہیرو کے انداز میں اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ ممی نے احتجاج کی چیخ بلند کی۔ ’’چڈہ۔ چھوڑ دو۔ فور گاڈزسیک۔ چھوڑ دو اسے۔ ‘‘ جب چڈے نے فی لس کو اپنے سینے سے جدا نہ کیا تو ممی نے اس کے منہ پر ایک چانٹا مارا۔ ’’گٹ آؤٹ۔ گٹ آؤٹ!‘‘ چڈہ بھونچکا رہ گیا۔ فی لس کو جدا کرکے اس نے دھکا دیا اور ممی کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا باہر چلا گیا۔ میں نے اٹھ کر رخصت لی اور چڈے کے پیچھے چلا گیا۔ سعیدہ کاٹیج پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ پتلون، قمیض اور بوٹ سمیت پلنگ پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور دوسرے کمرے میں جا کر بڑے میز پر سو گیا۔ صبح دیر سے اٹھا۔ گھڑی میں دس بجے رہے تھے۔ چڈہ صبح ہی صبح اٹھ کر باہر چلا گیا۔ کہاں، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ میں جب غسل خانے سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے اس کی آواز سنی جو گراج سے باہر آرہی تھی۔ میں رک گیا۔ وہ کسی سے کہہ رہا تھا ’’وہ لاجواب عورت ہے۔ خدا کی قسم وہ لاجواب عورت ہے۔ دعا کرو کہ اس کی عمر کو پہنچ کر تم بھی ویسی ہی گریٹ ہو جاؤ۔ ‘‘ اس کے لہجے میں ایک عجیب و غریب تلخی تھی۔ معلوم نہیں اس کا رخ اس کی اپنی ذات کی جانب تھا یا اس شخص کی طرف جس سے وہ مخاطب تھا۔ میں نے زیادہ دیر وہاں رکے رہنا مناسب نہ سمجھا اور اندر چلا گیا۔ نصف گھنٹے کے قریب میں نے اس کا انتظار کیا۔ جب وہ نہ آیا تو میں پربھات نگر روانہ ہو گیا۔ میری بیوی کا مزاج معتدل تھا۔ ہریش گھر میں نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے اس کے متعلق استفسار کیا تو میں نے کہہ دیا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ پونے میں کافی تفریح ہو گئی تھی۔ اس لیے میں نے ہریش کی بیوی سے کہا کہ ہمیں اجازت دی جائے۔ رسماً اس نے ہمیں روکنا چاہا، مگر میں سعیدہ کاٹیج ہی سے فیصلہ کرکے چلا تھا کہ رات کا و اقعہ میرے لیے ذہنی جگالی کے واسطے بہت کافی ہے۔ ہم چل دیے۔ راستے میں ممی کی باتیں ہوئیں۔ جو کچھ ہوا تھا۔ میں نے اس کو من و عن سنا دیا۔ اس کا رد عمل یہ تھا کہ فی لس اس کی کوئی رشتہ دار ہو گی۔ یا وہ اسے کسی اچھی آسامی کو پیش کرنا چاہتی تھی جبھی اس نے چڈے سے لڑائی کی۔ میں خاموش رہا۔ اس کی تردید کی نہ تائید۔ کئی دن گزرنے پر چڈے کا خط آیا، جس میں اس رات کے واقعے کا سرسری ذکر تھا۔ اور اس نے اپنے متعلق یہ کہا تھا۔ ’’میں اس روز حیوان بن گیا تھا۔ لعنت ہو مجھ پر!‘‘ تین مہینے کے بعد مجھے ایک ضروری کام سے پونے جانا پڑا۔ سیدھا سعیدہ کاٹیج پہنچا۔ چڈہ موجود نہیں تھا۔ غریب نواز سے اس وقت ملاقات ہوئی، جب وہ گراج سے باہر نکل کر شیریں کے خوردسال بچے کو پیار کررہا تھا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ تھوڑی دیر کے بعد رنجیت کمار آگیا، کچھوے کی چال چلتا اور خاموش بیٹھ گیا۔ میں اگر اس سے کچھ پوچھتا تو وہ بڑے اختصار سے جواب دیتا۔ اس سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ چڈہ اس رات کے بعد ممی کے پاس نہیں گیا اور نہ وہ کبھی یہاں آئی ہے۔ فی لس کو اس نے دوسرے روز ہی اپنے ماں باپ کے پاس بھجوا دیا تھا۔ وہ اس ہیجڑہ نما لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ کر آئی ہوئی تھی۔ رنجیت کمار کو یقین تھا کہ اگر وہ کچھ دن اور پونے میں رہتی تو وہ ضرور اسے لے اڑتا۔ غریب نواز کو ایسا کوئی زعم نہیں تھا۔ اسے صرف یہ افسوس تھا کہ وہ چلی گئی۔ چڈے کے متعلق یہ پتہ چلا کہ دو تین روز سے اس کی طبیعت ناساز ہے۔ بخار رہتا ہے، مگر وہ کسی ڈا کٹر سے مشورہ نہیں لیتا۔ سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے۔ غریب نواز نے جب مجھے یہ باتیں بتانا شروع کریں تو رنجیت کمار اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے سلاخوں والی کھڑکی میں سے دیکھا، اس کا رخ گراج کی طرف تھا۔ میں غریب نواز سے گراج والی شیریں کے متعلق کچھ پوچھنے کے لیے خود کو تیار ہی کررہا تھا کہ ون کترے سخت گھبرایا ہوا کمرے میں داخل ہوا اس سے معلوم ہوا کہ چڈے کو سخت بخار تھا، وہ اسے ٹانگے میں یہاں لارہا تھا کہ راستے میں بیہوش ہو گیا۔ میں اور غریب نواز باہر دوڑے۔ ٹانگے والے نے بیہوش چڈے کو سنبھالا ہوا تھا۔ ہم سب نے مل کر اسے اٹھایا اور کمرے میں پہنچا کربستر پر لٹا دیا۔ میں نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔ واقعی بہت تیز بخار تھا۔ ایک سوچھ ڈگری سے قطعاً کم نہ ہو گا۔ میں نے غریب نواز سے کہا کہ فوراً ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔ اس نے ون کترے سے مشورہ کیا۔ وہ ’’ابھی آتا ہوں‘‘ کہہ کر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ممی تھی جو ہانپ رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے چڈے کی طرف دیکھا اور قریب قریب چیخ کر پوچھا۔ ’’کیا ہوا میرے بیٹے کو؟‘‘ ون کترے نے جب اسے بتایا کہ چڈہ کئی دن سے بیمار تھا تو ممی نے بڑے رنج اور غصے کے ساتھ کہا ’’تم کیسے لوگ ہو۔ مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ ‘‘ پھر اس نے غریب نواز، مجھے اور ون کترے کو مختلف ہدایات دیں۔ ایک کو چڈے کے پاس سہلانے کی، دوسرے کو برف لانے کی اور تیسرے کو پنکھا کرنے کی۔ چڈے کی حالت دیکھ کر اس کی اپنی حالت بہت غیر ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے تحمل سے کام لیا اور ڈ اکٹر بلانے چلی گئی۔ معلوم نہیں رنجیت کمار کو گراج میں کیسے پتہ چلا۔ ممی کے جانے کے بعد فوراً وہ گھبرایا ہوا آیا۔ جب اس نے استفسار کیا توون کترے نے اس کے بیہوش ہونے کا واقعہ بیان کردیا اور یہ بھی بتا دیا کہ ممی ڈاکٹر کے پاس گئی ہے۔ یہ سن کر رنجیت کمار کا اضطراب کسی حد تک دور ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ تینوں بہت مطمئن تھے، جیسے چڈے کی صحت کی ساری ذمہ داری ممی نے اپنے سر لے لی ہے۔ اس کی ہدایات کے مطابق چڈے کے پاؤں سہلائے جارہے تھے۔ سر پر برف کی پٹیاں رکھی جارہی تھیں۔ جب ممی ڈاکٹر لے کر آئی تو وہ کسی قدر ہوش میں آرہا تھا۔ ڈاکٹر نے معائنے میں کافی دیر لگائی۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ چڈے کی زندگی میں خطرے میں ہے۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے ممی کو اشارہ کیا اور وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔ میں نے سلاخوں والی کھڑکی میں سے دیکھا گراج کے ٹاٹ کا پردہ ہل رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ممی آئی۔ غریب نواز، ون کترے اور رنجیت کمار سے اس نے فرداً فرداً کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ چڈہ اب آنکھیں کھول کر سن رہا تھا۔ ممی کو اس نے حیرت کی نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن وہ الجھن سی محسوس کررہا تھا۔ چند لمحات کے بعد جب وہ سمجھ گیا کہ ممی کیوں اور کیسے آئی ہے تو اس نے ممی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دبا کر کہا ’’ممی، یو آر گریٹ!‘‘ ممی اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ شفقت کا مجسمہ تھی۔ چڈے کے تپتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر اس نے مسکرائے ہوتے صرف اتنا کہا ’’میرے بیٹے۔ میرے غریب بیٹے!‘‘ چڈے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن فوراً ہی اس نے ان کو جذب کرنے کی کوشش اور کہا ’’نہیں۔ تمہارا بیٹا اول درجے کا سکاؤنڈرل ہے۔ جاؤ اپنے مرحوم خاوند کا پستول لاؤ اور اس کے سینے پر داغ دو!‘‘ ممی نے چڈے کے گال پر ہولے سے طمانچہ مارا ’’فضول بکواس نہ کرو۔ ‘‘ پھر وہ چست و چالاک نرس کی طرح اٹھی اور ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’لڑکو۔ چڈہ بیمار ہے، اور مجھے ہسپتال لے جانا ہے اسے۔ سمجھے؟‘‘ سب سمجھ گئے۔ غریب نواز نے فوراً ٹیکسی کا بندوبست کردیا۔ چڈے کو اٹھا کر اس میں ڈالا گیا۔ وہ بہت کہتا رہا کہ اتنی کونسی آفت آگئی ہے جو اس کو ہسپتال کے سپرد کیا جارہا ہے۔ مگر ممی یہی کہتی رہی کہ بات کچھ بھی نہیں۔ ہسپتال میں ذرا آرام رہتا ہے۔ چڈہ بہت ضدی تھا۔ مگر نفسیاتی طور پر وہ اس وقت ممی کی کسی بات سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چڈہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ ممی نے اکیلے میں مجھے بتایا کہ مرض بہت خطرناک ہے۔ یعنی پلیگ۔ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ خود ممی بہت پریشان تھی۔ لیکن اس کو امید تھی کہ یہ بلا ٹل جائے گی اور چڈہ بہت جلد تندرست ہو جائے گا۔ علاج ہوتا رہا۔ پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ ڈاکٹروں نے چڈے کا علاج بہت توجہ سے کیا مگر کئی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ اس کی جلد جگہ جگہ سے پھٹنے لگی۔ اور بخار بڑھتا گیا۔ ڈاکٹروں نے بالآخر یہ رائے دی کہ اسے بمبئی لے جاؤ، مگر ممی نہ مانی۔ اس نے چڈے کو اسی حالت میں اٹھوایا اور اپنے گھر لے گئی۔ میں زپادہ دیر پونے میں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ واپس بمبئی آیا تو میں نے ٹیلی فون کے ذریعے سے کئی مرتبہ اس کا حال دریافت کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ پلیگ کے حملے سے جانبر نہ ہوسکے گا۔ مگر مجھے معلوم ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی حالت سنبھل رہی ہے۔ ایک مقدمے کے سلسلے میں مجھے لاہور جانا پڑا۔ وہاں سے پندرہ روز کے بعد لوٹا تو میری بیوی نے چڈے کا ایک خط دیا جس صرف یہ لکھا تھا ’’عظیم المرتبت ممی نے اپنے ناخلف بیٹے کو موت کے منہ سے بچا لیا ہے۔ ‘‘ ان چند لفظوں میں بہت کچھ تھا۔ جذبات کا ایک پورا سمندرتھا۔ میں نے اپنی بیوی سے اس کا ذکر خلافِ معمول بڑے جذباتی انداز میں کیا تو اسنے متاثر ہو کر صرف اتنا کہا ’’ایسی عورتیں عموماً خدمت گزار ہوا کرتی ہیں۔ ‘‘ میں نے چڈے کو دو تین خط لکھے، جن کا جواب نہ آیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ممی نے اس کو تبدیلی آب و ہوا کی خاطر اپنی ایک سہیلی کے ہاں لوناولہ بھجوا دیا تھا۔ چڈہ وہاں بمشکل ایک مہینہ رہا اور اکتا کر چلا آیا۔ جس روز وہ پونے پہنچا اتفاق سے میں وہیں تھا۔ پلیگ کے زبردست حملے کے باعث وہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ مگر اس کی غوغا پسند طبیعت اسی طرح زوروں پر تھی۔ اپنی بیماری کا اس نے اس انداز میں ذکر کیا کہ جس طرح آدمی سائیکل کے معمولی حادثے کا ذکر کرتا ہے۔ اب کہ وہ جانبر ہو گیا تھا، اپنی خطرناک علالت کے متعلق تفصیلی گفتگو اسے بیکار معلوم ہوتی تھی۔ سعیدہ کاٹیج میں چڈے کی غیر حاضری کے دوران میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ ایل برادران یعنی عقیل اور شکیل کہیں اور اٹھ گئے تھے۔ کیونکہ انھیں اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کرنے کے لیے سعیدہ کاٹیج کی فضا مناسب و موزوں معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کی جگہ ایک بنگالی میوزک ڈائریکٹر آگیا تھا۔ اس کا نام سین تھا۔ اس کے ساتھ لاہور سے بھاگا ہوا ایک لڑکا رام سنگھ رہتا تھا۔ سعیدہ کاٹیج والے سب اس سے کام لیتے تھے۔ طبعیت کا بہت شریف اور خدمت گزار تھا۔ چڈے کے پاس اس وقت آیا تھا جب وہ ممی کے کہنے پر لوناولہ جارہا تھا۔ اس نے غریب نواز اور رنجیت کمار سے کہہ دیا تھا کہ اسے سعیدہ کاٹیج میں رکھ لیا جائے۔ سین کے کمرے میں چونکہ جگہ خالی تھی، اس لیے اس نے وہیں اپنا ڈیرہ جما دیا تھا۔ رنجیت کمار کو کمپنی کے نئے فلم میں ہیرو منتخب کرلیا گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر فلم کامیاب ہوا تو اس کو دوسرا فلم ڈائریکٹ کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ چڈہ اپنی دو برس کی جمع شدہ تنخواہ میں سے ڈیڑھ ہزار روپیہ یک مشت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس نے رنجیت کمار سے کہا تھا۔ ’’میری جان اگر کچھ وصول کرنا ہے تو پلیگ میں مبتلا ہو جاؤ۔ ہیرو اور ڈائریکٹر بننے سے میرا تو خیال ہے یہی بہتر ہے۔ ‘‘ غریب نواز تازہ تازہ حیدر آباد سے واپس آیا تھا۔ اس لیے سعیدہ کاٹیج کسی قدر مرفع الحال تھی۔ میں نے دیکھا کہ گراج کے باہر الگنی سے ایسی قمیض اور شلواریں لٹک رہی تھیں جن کپڑا اچھا اور قیمتی تھا۔ شیریں کے خوردسال بچے کے پاس نئے کھلونے تھے۔ مجھے پونے میں پندرہ روز رہنا پڑا۔ میرا پرانا فلموں کا ساتھی اب نئے فلم کی ہیروئن کی محبت میں گرفتار ہونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ مگر ڈرتا تھا۔ کیونکہ یہ ہیروئن پنجابی تھی اور اس کا خاوند بڑی بڑی مونچھوں والا ہٹا کٹا مشٹنڈا تھا۔ چڈے نے اس کو حوصلہ دیا تھا ’’کچھ پروا نہ کرو اس سالے کی۔ جس پنجابی ایکٹرس کا خاوند بڑی بڑی مونچھوں والا پہلوان ہو، وہ عشق کے میدان میں ضرور چاروں شانے چت گرا کرتا ہے۔ بس اتنا کرو کہ سو روپے فی گالی کے حساب سے مجھ سے پنجابی کی دس بیس بڑی ہیوی ویٹ قسم کی گالیاں سیکھ لو۔ یہ تمہاری خاص مشکلوں میں بہت کام آیا کریں گی۔ ‘‘ ہریش ایک بوتل فی گلاس کے حساب سے چھ گالیاں پنجاب کے مخصوص لب ولہجے میں یاد کر چکا تھا۔ مگر ابھی تک اسے اپنے عش کے راستے میں کوئی ایسی خاص مشکل درپیش نہیں آئی تھی جو وہ ان کی تاثیر کا امتحان لے سکتا۔ ممی کے گھر حسب معمول محفلیں جمتی تھیں۔ پولی۔ ڈولی۔ کٹی۔ ایلما۔ تھیلما وغیرہ سب آئی تھیں۔ ون کترے بدستور تھیلما کو کتھا کلی اور تانڈیو ناچ کی تاتھئی اور دھانی ناکت کی ون ٹو تھری بنا بنا کر بتاتا تھا۔ اور وہ اسے سیکھنے کی پر خلوص کوشش کرتی تھی۔ غریب نواز حسب توفیق قرض دے رہا تھا اور رنجیت کمار جس کو اب کمپنی کے نئے فلم میں ہیرو کا چانس مل رہا تھا۔ ان میں سے کسی ایک کو باہر کھلی ہوا میں لے جاتا تھا۔ چڈے کے ننگے ننگے لمرک سن کر اسی طرح قہقہے برپا ہوتے تھے۔ ایک صرف وہ نہیں تھی۔ وہ جس کے بالوں کے رنگ کے لیے صحیح تشبیہہ ڈھونڈنے میں چڈے نے کافی وقت صرف کیا تھا۔ مگر ان محفلوں میں چڈے کی نگاہیں اسے ڈھونڈتی نہیں تھی۔ پھر بھی کبھی کبھی چڈے کی نظریں ممی کی نظروں سے ٹکرا کر جھک جاتی تھیں تو میں محسوس کرتا تھا کہ اس کو اپنی اس رات کی دیوانگی کا افسوس ہے۔ ایسا افسوس جس کی یاد سے اس کو تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ چوتھے پیگ کے بعد کسی وقت اس قسم کا جملہ اس کی زبان سے بے اختیار نکل جاتا۔ ’’چڈہ۔ یو آر اے ڈیمڈ بروٹ!‘‘ یہ سن کر ممی زیر لب مسکرا دیتی تھی، جیسے وہ اس مسکراہٹ کی شیرینی میں لپیٹ لپیٹ کر یہ کہہ رہی ہے۔ ’’ڈونٹ ٹوک روٹ۔ ‘‘ ون کترے سے بدستور اس کی چخ چلتی تھی۔ سرور میں آکر جب بھی وہ اپنے باپ کی تعریف میں یا اپنی بیوی کی خوبصورتی کے متعلق کچھ کہنے لگتا تو وہ اس کی بات بہت بڑے گنڈاسے سے کاٹ ڈالتا۔ وہ غریب چپ ہو جاتا اور اپنا میٹری کولیشن سرٹیفکیٹ تہہ کرکے جیب میں ڈال لیتا۔ ممی، وہی ممی تھی۔ پولی کی ممی، ڈولی کی ممی، چڈے کی ممی، رنجیت کمار کی ممی۔ سوڈے کی بوتلوں، گزک چیزوں اور محفل جمانے کے دوسروں ساز و سامان کے انتظام میں وہ اسی پر شفقت انہماک سے حصہ لیتی تھی۔ اس کے چہرے کا میک اپ ویسا ہی واہیات ہوتا تھا۔ اس کے کپڑے اسی طرح کے شوخ و شنگ تھے۔ غا زے اور سرخی کی تہوں سے اس کی جھریاں اسی طرح جھانکتی تھیں۔ مگر اب مجھے یہ مقدس دکھائی دیتی تھیں۔ اتنی مقدس کہ پلیک کے کیڑے ان تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ ڈر کر، سمٹ کر، وہ ڈر گئے تھے۔ چڈے کے جسم سے بھی نکل بھاگے تھے کہ اس پر ان جھریوں کا سایہ تھا۔ ان مقدس جھریوں کا جو ہر وقت نہایت واہیات رنگوں میں لتھڑی رہتی تھیں۔ ون کترے کی خوبصورت بیوی کے جب اسقاط ہوا تھا تو ممی ہی کی بروقت امداد سے اس کی جان بچی تھی۔ تھیلما جب ہندوستانی رقص سیکھنے کے شوق میں مارواڑ کے ایک کتھک کے ہتھے چڑھ گئی تھی اور اس سودے میں ایک روز جب اس کو اچانک معلوم ہوا تھا کہ اس نے ایک مرض خرید لیا ہے تو ممی نے اس کو بہت ڈانٹا تھا۔ اور اس کو جہنم سپرد کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے قطع تعلق کرنے کا تہیہ کرلیا تھا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا تھا۔ اس نے اسی روز شام کو اپنے بیٹوں کو ساری بات سنا دی تھی اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ تھیلما کا علاج کرائیں۔ کٹی کو ایک معما حل کرنے کے سلسلے میں پانچ سو روپے کا انعام ملا تھا، تو اس نے مجبور کیا تھا کہ وہ کم از کم اس کے آدھے روپے غریب نواز کو دے دے، کیونکہ اس غریب کا ہاتھ تنگ ہے۔ اس نے کٹی سے کہا تھا ’’تم اس وقت اسے دے دو۔ بعد میں لیتی رہنا‘‘ اور مجھ سے اس نے پندرہ روز کے قیام کے دوران میں کئی مرتبہ میری مسز کے بارے میں پوچھا تھا اور تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پہلے بچے کی موت کو اتنے برس ہو گئے ہیں، دوسرا بچہ کیوں نہیں ہوا۔ رنجیت کمار سے زیادہ رغبت کے ساتھ بات نہیں کرتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی نمائش پسند طبیعت اس کو اچھی نہیں لگتی۔ میرے سامنے اس کا اظہار وہ ایک دو مرتبہ لفظوں میں بھی کر چکی تھی۔ میوزک ڈائریکٹر سین سے وہ نفرت کرتی تھی۔ چڈہ اس کو اپنے ساتھ لاتا تھا تووہ اس سے کہتی تھی ’’ایسے ذلیل آدمی کو یہاں مت لایا کرو۔ ‘‘ چڈہ اس سے وجہ پوچھتا تو وہ بڑی سنجیدگی سے یہ جواب دیتی تھی کہ ’’مجھے یہ آدمی اوپرا اوپراسا معلوم ہوتا ہے۔ فٹ نہیں بیٹھتا میری نظروں میں۔ ‘‘ یہ سن کر چڈہ ہنس دیتا تھا۔ ممی کے گھر کی محفلوں کی پُرخلوص گرمی لیے میں واپس بمبئے چلا گیا۔ ان محفلوں میں زندگی تھی، بلا نوشی تھی، جنسیاتی رنگ تھا۔ مگر کوئی الجھاؤ نہیں تھا۔ ہر چیز حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح قابل فہم تھی۔ اسی طرح ابھری ہوئی۔ بظاہر اسی طرح کڈھب، بینڈی اور دیکھنے والے کو گومگو کی حالت میں ڈالنے والی۔ مگر اصل میں بڑی صحیح، با سلیقہ اور اپنی جگہ پر قائم۔ دوسرے روز صبح کے اخباروں میں یہ پڑھا کہ سعیدہ کاٹیج میں بنگالی میوزک ڈائریکٹر سین مارا گیا ہے۔ اس کو قتل کرنے والا کوئی رام سنگھ ہے جس کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ میں نے فوراً پونے ٹیلیفون کیا مگرکوئی نہ مل سکا۔ ایک ہفتے کے بعد چڈے کا خط آیا جس میں حادثہ قتل کی پوری تفصیل تھی۔ رات کو سب سوئے تھے کہ چڈے کے پلنگ پر اچانک کوئی گرا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ روشنی کی تو دیکھا کہ سین ہے۔ خون میں لت پت۔ چڈہ اچھی طرح اپنے ہوش و حواس سنبھالنے بھی نہ پایا تھا کہ دروازے میں رام سنگھ نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ چھری تھی۔ فوراً ہی غریب نواز اور رنجیت کمار بھی آگئے۔ ساری سعیدہ کاٹیج بیدار ہو گئی۔ رنجیت کمار اور غریب نواز نے رام سنگھ کو پکڑ لیا اور چھری اس کے ہاتھ سے چھین لی۔ چڈے نے سین کو اپنے پلنگ پر لٹایا اور اس سے زخموں کے متعلق کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ اس نے آخری ہچکی لی اور ٹھنڈا ہو گیا۔ رام سنگھ، غریب نواز اور رنجیت کمار کی گرفت میں تھا، مگر وہ دونوں کانپ رہے تھے۔ سین مر گیا تو رام سنگھ نے چڈے سے پوچھا ’’بھاپا جی۔ مر گیا؟‘‘ چڈے نے اثبات میں جواب دیا تو رام سنگھ نے رنجیت کمار اور غریب نواز سے کہا ’’مجھے چھوڑ دیجیے، میں بھاگوں گا نہیں۔ ‘‘ چڈے کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے فوراً نوکر کو بھیج کر ممی کو بلوایا۔ ممی آئی تو سب مطمئن ہو گئے کہ معاملہ سلجھ جائے گا۔ اس نے رام سنگھ کو آزاد کردیا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئی جہاں اس کا بیان درج کرادیا گیا۔ اس کے بعد چڈہ اور اس کے ساتھی کئی دن تک سخت پریشان رہے۔ پولیس کی پوچھ گچھ، بیانات، پھر عدالت میں مقدمے کی پیروی۔ ممی اس دوران میں بہت دوڑ دھوپ کرتی رہی تھی۔ چڈہ کو یقین تھا کہ رام سنگھ بری ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ماتحت عدالت ہی نے اسے صاف بری کردیا۔ عدالت میں اس کا وہی بیان تھا جو اس نے تھانے میں دیا تھا۔ ممی نے اس سے کہا تھا ’’بیٹا گھبراؤ نہیں، جو کچھ ہوا ہے سچ بچ بتا دو۔ ‘‘ ۔ اور اس نے تمام و اقعات من و عن بیان کردیے تھے کہ سین نے اس کو پلے بیگ سنگر بنا دینے کا لالچ دیا تھا۔ اس کو خود بھی موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا اور سین بہت اچھا گانے والا تھا۔ وہ اس چکر میں آکر اس کی شہوانی خواہشات کو پوری کرتا رہا۔ مگر اس کو اس سے سخت نفرت تھی۔ اس کا دل بار بار اسے لعنت ملامت کرتا تھا۔ آخر میں وہ اسقدر تنگ آگیا تھا کہ اس نے سین سے کہہ بھی دیا تھا کہ اگر اس نے پھر اسے مجبور کیا تو وہ اسے جان سے مار ڈالے گا۔ چنانچہ واردات کی رات کو یہی ہوا۔ عدالت میں اس نے یہی بیان دیا۔ ممی موجود تھی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ رام سنگھ کو دلاسا دیتی رہی کہ گھبراؤ نہیں، جو سچ ہے کہہ دو۔ سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے ہاتھوں نے خون کیا ہے مگر ایک بڑی نجس چیز ہے۔ ایک خباثت کا، ایک غیر فطری سودے کا۔ رام سنگھ نے بڑی سادگی، بڑے بھولپن اور بڑے معصومانہ انداز میں سارے واقعات بیان کیے۔ مجسٹریٹ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے رام سنگھ کو بری کردیا۔ چڈے نے کہا ’’اس جھوٹے زمانے میں یہ صداقت کی حیرت انگیز فتح ہے۔ اور اس کا سہرہ میری بڈھی ممی کے سر ہے!‘‘ چڈے نے مجھے اس جلسے میں بلایا تھا جو رام سنگھ کی رہائی کی خوشی میں سعیدہ کاٹیج والوں نے کیا تھا۔ مگر میں مصروفیت کے باعث اس میں شریک نہ ہوسکا۔ ایل بردارز شکیل اور عقیل دونوں واپس سعیدہ کاٹیج آگئے تھے۔ باہر کی فضا بھی ان کی ذاتی فلم کمپنی کی تاسیس و تعمیر کے لیے راس نہ آئی تھی۔ اب وہ پھر اپنی پرانی فلم کمپنی میں کسی اسسٹنٹ کے اسسٹنٹ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کے پاس اس سرمائے میں سے چند سو باقی بچے ہوئے تھے جو انھوں نے اپنی فلم کمپنی کی بنیادوں کے لیے فراہم کیا تھا۔ چڈے کے مشورے پر انھوں نے یہ سب رویہ جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے دیا۔ چڈے نے ان سے کہا تھا ’’اب میں چار پیگ پی کر دعا کروں گا کہ وہ تمہاری ذاتی فلم کمپنی فوراً کھڑی کردے۔ ‘‘ چڈے کا بیان تھا کہ اس جلسے میں ون کترے نے شراب پی کر خلافِ معمول اپنے سالے باپ کی تعریف نہ کی اور نہ اپنی خوبصورت بیوی کا ذکر کیا۔ غریب نواز نے کٹی کی فوری ضروریات کے پیش نظر اس کو دوسو روپے قرض دیے اور رنجیت کمار سے اس نے کہا تھا ’’تم ان بیچاری لڑکیوں کو یونہی جھانسے نہ دیا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تمہاری نیت صاف ہو، مگر لینے کے معاملے میں ان کی نیت اتنی صاف نہیں ہوتی۔ کچھ نہ کچھ دے دیا کرو!‘‘ ممی نے اس جلسے میں رام سنگھ کو بہت پیار کیا، اور سب کو یہ مشورہ دیا کہ اسے گھر واپس جانے کے لیے کہا جائے۔ چنانچہ وہیں فیصلہ ہوا اور دوسرے روز غریب نواز نے اس کے ٹکٹ کا بندوبست کردیا۔ شیریں نے سفر کے لیے اس کو کھانا پکا کردیا۔ اسٹیشن پر سب اس کو چھوڑنے گئے۔ ٹرین چلی تو وہ دیر تک ہاتھ ہلاتے رہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مجھے اس جلسے کے دس روز بعد معلوم ہوئیں۔ جب مجھ ایک ضروری کام سے پونے جانا پڑا۔ سعیدہ کاٹیج میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایسا معلوم تھا کہ وہ ایسا پڑاؤ ہے جس کی شکل و صورت ہزار ہا قافلوں کے ٹھہرنے سے بھی تبدیل نہیں ہوتی۔ وہ کچھ ایسی جگہ تھی جو اپنا خلا خود ہی پُر کردیتی تھی۔ میں جس روز وہاں پہنچا۔ شیرینی بٹ رہی تھی۔ شیریں کے گھر ایک اور لڑکا ہوا تھا۔ ون کترے کے ہاتھ میں گلیکسو کا ڈبہ تھا۔ ان دنوں یہ بڑی مشکل سے دستیاب ہوتا تھا۔ اس نے اپنے بچے کے لیے کہیں سے دو پیدا کیے تھے۔ ان میں سے ایک وہ شیریں کے نوزائیدہ لڑکے کے لیے لے آیا تھا۔ چڈے نے آخری دو لڈو اس کے منہ میں ٹھونسے اور کہا ’’تو یہ گلیکسو کا ڈبہ لے آیا ہے۔ بڑا کمال کیا ہے تو نے۔ اپنے سالے باپ اور اپنی سالی بیوی کی دیکھنا، ہرگز کوئی بات نہ کرنا۔ ‘‘ ون کترے نے بڑے بھولپن کے ساتھ کہا ’’سالے، میں اب کوئی پئے لاہوں۔ وہ تو دارو بولا کرتی ہے۔ ویسے بائی گاڈ۔ میری بیوی بڑی ہینڈسم ہے۔ ‘‘ چڈے نے اس قدر بے تحاشا قہقہہ لگایا کہ ون کترے کو اور کچھ کہنے کا موقع نہ ملا۔ اس کے بعد چڈہ، غریب نواز اور رنجیت کمار مجھ سے متوجہ ہوئے اور اس کہانی کی باتیں شروع ہو گئیں جو میں اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کے ذریعے سے وہاں کے ایک پروڈیوسر کے لیے لکھ رہا تھا۔ پھر کچھ دیر شیریں کے نوزائیدہ لڑکے کا نام مقرر ہوتا رہا۔ سینکڑوں نام پیش ہوئے مگر چڈے کو پسند نہ آئے۔ آخرمیں نے کہا کہ جائے پیدائش یعنی سعیدہ کاٹیج کی رعایت سے لڑکا مولودِ مسعود ہے۔ اس لیے مسعود نام بہتر رہے گا۔ چڈے کو پسند نہیں تھا لیکن اس نے عارضی طور پر قبول کرلیا۔ اس دوران میں میں نے محسوس کیا کہ چڈہ، غریب نواز اور رنجیت کمار تینوں کی طبیعت کسی قدر بجھی بجھی سی تھی۔ میں نے سوچا شاید خزاں کے موسم کی وجہ ہے۔ جب آدمی خواہ مخواہ تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ شیریں کا نیا بچہ بھی اس خفیف اضمحلال کا باعث ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ شبہ استدلال پر پورا نہیں اترتا تھا۔ سین کے قل کی ٹریجڈی؟۔ معلوم نہیں۔ کیا وجہ تھی۔ لیکن میں نے یہ قطعی طور پر محسوس کیا تھا کہ وہ سب افسردہ تھے۔ بظاہر ہنستے تھے، بولتے تھے مگر اندرونی طور پر مضطرب تھے۔ میں پربھات نگر میں اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کے گھر میں کہانی لکھتا رہا۔ یہ مصروفیت پورے سات دن جاری رہی۔ مجھے بار بار خیال آتا تھا کہ اس دوران میں چڈے نے خلل اندازی کیوں نہیں کی۔ ون کترے بھی کہیں غائب تھا۔ رنجیت کمار سے میرے کوئی اتنے مراسم نہیں تھے کہ وہ میرے پاس اتنی دور آتا۔ غریب نواز کے متعلق میں نے سوچا تھا کہ شاید حیدر آباد چلا گیا ہو۔ اور میرا پرانا فلموں کا ساتھی اپنے نئے فلم کی ہیروئن سے اس کے گھر میں اس کے بڑی بڑی مونچھوں والے خاوند کی موجودگی میں عشق لڑانے کا مصمم ارادہ کررہا تھا۔ میں اپنی کہانی کے ایک بڑے دلچسپ باب کا منظر نامہ تیار کررہا تھا کہ چڈہ بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے مجھ سے پوچھا ’’اس بکواس کا تم نے کچھ وصول کیا ہے۔ ‘‘ اس کا اشارہ میری کہانی کی طرف تھا جس کے معاوضے کی دوسری قسط میں نے دو روز ہوئے وصول کی تھی۔ ’’ہاں۔ دوسرا ہزار پرسوں لیا ہے۔ ‘‘ ’’کہاں ہے یہ ہزار؟‘‘ یہ کہتا چڈہ میرے کوٹ کی طرف بڑھا۔ ’’میری جیب میں!‘‘ چڈے نے میری جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سوسو کے چار نوٹ نکالے اور مجھ سے کہا۔ ’’آج شام کو ممی کے ہاں پہنچ جانا۔ ایک پارٹی ہے!‘‘ میں اس پارٹی کے متعلق اس سے کچھ دریافت ہی کرنے والا تھا کہ وہ چلا گیا۔ وہ افسردگی جو میں نے چند روز پہلے اس میں محسوس کی تھی بدستور موجود تھی۔ وہ کچھ مضطرب بھی تھا۔ میں نے اس کے متعلق سوچنا چاہا مگر دماغ مائل نہ ہوا کہانی کے دلچسپ باب کا منظر نامہ اس میں بری طرح پھنسا تھا۔ اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کی بیوی سے اپنی بیوی کی باتیں کرکے شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں وہاں سے روانہ ہو کر سات بجے سعیدہ کاٹیج پہنچا۔ گراج کے باہر الگنی پر گیلے گیلے پوتڑے لٹک رہے تھے۔ اور نل کے پاس ایل برادران شیریں کے بڑے لڑکے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ گراج کے ٹاٹ کا پردہ ہٹا ہوا تھا ��ور شیریں ان سے غالباً ممی کی باتیں کرہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ چپ ہو گئے۔ میں نے چڈے کے متعلق پوچھا تو عقیل نے کہا کہ وہ ممی کے گھر مل جائے گا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک شوربرپا تھا۔ سب ناچ رہے تھے۔ غریب نواز پولی کے ساتھ، رنجیت کمار، کٹی اور ایلما کے ساتھ اور ون کترے تھیلما کے ساتھ۔ وہ اس کو کتھا کلی کے مدرے بتا رہا تھا۔ چڈہ ممی کو گود میں اٹھائے ادھر ادھر کود رہا تھا۔ سب نشے میں تھے۔ ایک طوفان مچا ہوا تھا۔ میں اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے چڈے نے نعرہ لگایا۔ اس کے بعد دیسی اور نیم بدیشی آوازوں کا ایک گولہ سا پھٹا جس کی گونج دیر تک کانوں میں سرسرارتی رہی۔ ممی بڑے تپاک سے ملی۔ ایسے تپاک سے جو بے تکلفی کی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اس نے کہا ’’کس می ڈئر!‘‘ لیکن اس نے خود ہی میرا ایک گال چوم لیا اور گھسیٹ کرناچنے والوں کے جھرمٹ میں لے گئی۔ چڈہ ایک دم پکارا۔ بند کرو۔ اب شراب کا دور چلے گا۔ ‘‘ پھر اس نے نوکر کو آواز دی ’’اسکاٹ لینڈ کے شہزادے۔ وسکی کی نئی بوتل لاؤ۔ ‘‘ اسکاٹ لینڈ کاشہزادہ نئی بوتل لے آیا۔ نشے میں دھت تھا۔ بوتل کھولنے لگا تو ہاتھ سے گری اور چکنا چور ہو گئی۔ ممی نے اس کو ڈ انٹنا چاہا تو چڈے نے روک دیا اور کہا ’’ایک بوتل ٹوٹی ہے ممی۔ جانے دو، یہاں دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ‘‘ محفل ایک دم سونی ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی چڈے نے اس لمحاتی افسردگی کو اپنے قہقہوں سے درہم برہم کردیا۔ نئی بوتل آئی۔ ہر گلاس میں گرانڈیل پیگ ڈالا گیا۔ چڈے نے بے ربط سی تقریر شر وع ہوئی ’’لیڈیز اینڈ جنٹلمین۔ آپ سب جہنم میں جائیں۔ منٹو ہمارے درمیان موجود ہے۔ بزعم خود بہت بڑا افسانہ نگار بنتا ہے۔ انسانی نفسیات کی۔ وہ کیا کہتے ہیں عمیق ترین گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بکواس ہے۔ کنویں میں اترنے والے۔ کنوئیں میں اترنے والے‘‘ اس نے ادھر ادھر دیکھا ’’افسوس کہ یہاں کوئی ہندستوڑ نہیں۔ ایک حیدر آبادی ہے جو قاف کو خاف کہتا ہے اور جس سے دس برس پیچھے ملاقات ہوئی تو کہے گا، پرسوں آپ سے ملا تھا۔ لعنت ہو اس کے نظام حیدر آباد پر جس کے پاس کئی لاکھ ٹن سونا ہے۔ کروڑ ہا جواہرات ہیں، لیکن ایک ممی نہیں۔ ہاں۔ وہ کنوئیں میں اترنے والے۔ میں نے کیا کہا تھا کہ سب بکواس ہے۔ پنجابی میں جنھیں ٹوبہے کہتے ہیں۔ وہ غوطہ لگانے والے، وہ اس کے مقابلے میں انسانی نفسیات کو بدرجہا بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں۔ ‘‘ سب نے زندہ باد کا نعر لگایا۔ چڈہ چیخا ’’یہ سب سازش ہے۔ اس منٹو کی سازش ہے۔ ورنہ میں نے ہٹلر کی طرح تم لوگوں کو مردہ باہ کے نعرے کا اشارہ کیا تھا۔ تم سب مردہ باد۔ لیکن پہلے میں۔ میں۔ ‘‘ وہ جذباتی ہو گیا۔ ’’میں۔ جس نے اس رات اس۔ سانپ کے پیٹ کے کھپروں ایسے رنگ والے بالوں کی ایک لڑکی کے لیے اپنی ممی کو ناراض کردیا۔ میں خود کو خدا معلوم کہاں کا ڈون جو آسان سمجھتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اس کو حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مجھے اپنی جوانی کی قسم۔ ایک ہی بوسے میں اس پلیٹنم بلونڈ کے کنوارپنے کا سارا عرق میں اپنے ان موٹے موٹے ہونٹوں سے چوس سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک۔ یہ ایک نامناسب حرکت تھی۔ وہ کم عمر تھی۔ اتنی کم عمر، اتنی کمزور، اتنی کیریکٹرلس۔ اتنی‘‘ اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’بتاؤ یار اسے اردو فارسی یا عربی میں کیا کہیں گے۔ کیریکٹر لس۔ لیڈیز اینڈ جنٹلمین۔ وہ اتنی چھوٹی، اتنی کمزور اور اتنی لاکردار تھی کہ اس رات گناہ میں شریک ہو کریا تو وہ ساری عمر پچھتاتی رہتی، یا اسے قطعاً بھول جاتی۔ ان چند گھڑیوں کی لذت کی یاد کے سہارے جینے کا سلیقہ اس کو قطعی طور پر نہ آتا۔ مجھے اس کا دکھ ہوتا۔ اچھا ہوا کہ ممی نے اسی وقت میرا حقہ پانی بند کردیا۔ میں اب اپنی بکواس بند کرتا ہوں۔ میں نے اصل میں ایک بہت لمبی چوڑی تقریر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر مجھ سے کچھ بولا نہیں جاتا۔ میں ایک پیگ اور پیتا ہوں۔ ‘‘ اس نے ایک پیگ اور پیا۔ تقریر کے دوران میں سب خاموش تھے۔ اس کے بعد بھی خاموش رہے۔ ممی نہ معلوم کیا سوچ رہی تھی۔ غازے اور سرخی کی تہوں کے نیچے اس کی جھریاں بھی ایسا دکھائی دیتا تھا کہ غور و فکر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ بولنے کے بعد چڈہ جیسے خالی سا ہو گیا تھا۔ ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ جیسے کوئی چیز کھونے کے لیے ایسا کونہ ڈھونڈ رہا ہے جو اس کے ذہن میں اچھی طرح محفوظ ہے۔ میں نے اس سے ایک بار پوچھا۔ ’’کیا بات ہے چڈے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’کچھ نہیں۔ بات یہ ہے کہ آج وسکی میرے دماغ کے چوتڑوں پر جما کے لات نہیں مار رہی۔ ‘‘ اس کا قہقہہ کھوکھلا تھا۔ ون کترے نے تھلیما کو اٹھا کر مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنے باپ کی تعریف شروع کردی کہ وہ بڑا گُنی آدمی تھا۔ ایسا ہارمونیم بجاتا تھا کہ لوگ دم بخود ہو جاتے تھے۔ پھر اس نے اپنی بیوی کی خوبصورتی کا ذکر کیا اور بتایا کہ بچپن ہی میں اس کے باپ نے یہ لڑکی چن کر اس سے بیاہ دی تھی۔ بنگالی میوزک ڈائریکٹر سین کی بات نکلی تو اس نے کہا ’’مسٹر منٹو۔ وہ ایک دم ہلکٹ آدمی تھا۔ کہتا تھا میں خاں صاحب عبدالکریم خاں کا شاگرد ہوں۔ جھوٹ، بالکل جھوٹ۔ وہ تو بنگال کے کسی بھڑوے کا شاگرد تھا۔ ‘‘ گھڑی نے دو بجائے۔ چڈے نے جسٹربگ بند کیا۔ کٹی کو دھکا دے کر ایک طرف گرایا اور بڑھ کر ون کترے کے کدو ایسے سر پر دھپا مار کر ’’بکواس بند کر بے۔ اٹھ۔ اور کچھ گا۔ لیکن خبردار اگر تو نے کوئی پکا راگ گایا۔ ‘‘ ون کترے نے فوراً گانا شروع کردیا۔ آواز اچھی نہیں تھی۔ مُرکیوں کی نوک پلک واضح طور پر اس کے گلے سے نہیں نکلتی تھی۔ لیکن جو کچھ گاتا تھا، پورے خلوص سے گاتا تھا۔ مالکوس میں اس نے اوپر تلے دو تین فلمی گانے سنائے جن سے فضا بہت اداس ہو گئی، ممی اور چڈہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور نظریں کسی اورسمٹ ہٹا لیتے تھے۔ غریب نواز اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ چڈے نے زور کا قہقہہ بلند کیا اور کہا ’’حیدر آباد والوں کی آنکھ کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ موقع بے موقع ٹپکنے لگتا ہے۔ ‘‘ غریب نواز نے اپنے آنسو پونچھے اور ایلما کے ساتھ ناچنا شروع کردیا۔ ون کترے نے گراموفون کے توے پر رکارڈ رکھ کر سوئی لگا دی۔ گھسی ہوئی ٹیون بجنے لگی۔ کڈے نے ممی کو پھر گود میں اٹھا لیا اور کود کود کر شورمچانے لگا۔ اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔ ان میراثیوں کی طرح جو شادی بیاہ کے موقعوں پر اونچے سروں میں گا گا کر اپنی آواز کا ناس مار لیتی ہیں۔ اس اچھل کود اور چیخم دھاڑ میں چار بج گئے۔ ممی ایک دم خاموش ہو گئی۔ پھر اس نے چڈے سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’بس، اب ختم!‘‘ چڈے نے بوتل سے منہ لگایا، اسے خالی کرکے ایک طرف پھینک دیااور مجھ سے کہا۔ ’’چلو منٹو چلیں!‘‘ میں نے اٹھ کر ممی سے اجازت لینی چاہی کہ چڈے نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ ’’آج کوئی الوداع نہیں کہے گا!‘‘ ہم دونوں باہر نکل رہے تھے کہ میں نے ون کترے کے رونے کی آواز سنی۔ میں نے چڈے سے کہا۔ ’’ٹھہرو، دیکھیں کیا بات ہے، ‘‘ مگر وہ مجھے دھکیل کر آگے لے گیا۔ ’’اس سالے کی آنکھوں کا مثانہ بھی خراب ہے۔ ‘‘ ممی کے گھر سے سعیدہ کاٹیج بالکل نزدیک تھی۔ راستے میں چڈے نے کوئی بات نہ کی۔ سونے سے پہلے میں نے اس سے اس عجیب و غریب پارٹی کے متعلق استفسارکرنا چاہا تو اس نے کہا ’’مجھے سخت نیند آرہی ہے‘‘ اور بستر پر لیٹ گیا۔ صبح اٹھ کر میں غسل خانے میں گیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ غریب نواز گراج کے ٹاٹ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اور رو رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آنسو پونچھتا وہاں سے ہٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اس سے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا ’’ممی چلی گئی!‘‘ ’’کہاں!‘‘ ’’معلوم نہیں‘‘ یہ کہہ کر غریب نواز نے سڑک کا رخ کیا۔ چڈہ بستر پرلیٹا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا تھا۔ میں نے اس سے ممی کے بارے میں پوچھا تو اس نے مسکرا کر کہا ’’چلی گئی۔ صبح کی گاڑی سے اسے پونہ چھوڑنا تھا۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’مگر کیوں؟‘‘ چڈے کے لہجے میں تلخی آگئی ’’حکومت کو اس کی ادائیں پسند نہیں تھیں۔ اس کی وضع قطع پسند نہیں تھی۔ اس کے گھر کی محفلیں اس کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔ اس لیے کہ پولیس اس کی شفقت اور محبت بطور یرغمال کے لینا چاہتی تھی۔ وہ اسے ماں کہہ کر ایک دلالہ کا کام لینا چاہتے تھے۔ ایک عرصے سے اس کا ایک کیس زیر تفتیش تھا۔ آخر حکومت پولیس کی تحقیقات سے مطمئن ہو گئی اور اس کو تڑی پار کردیا۔ شہر بدر کردیا۔ وہ اگر قحبہ تھی۔ دلالہ تھی۔ اس کا وجود سوسائٹی کے لیے مہلک تھا تو اس کا خاتمہ کردینا چاہیے تھا۔ پونے کی غلاظت سے یہ کیوں کہا گیا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔ اور جہاں چاہو ڈھیر ہو سکتی ہو۔ چڈے نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے بڑے جذبات بھرے لہجے میں کہا ’’مجھے افسوس ہے منٹو کہ اس غلاظت کے ساتھ ایک ایسی پاکیزگی چلی گئی ہے جس نے اس رات میری ایک بڑی غلط اور نجس ترنگ کو میرے دل و دماغ سے دھو ڈالا۔ لیکن مجھے افسوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پُونے سے چلی گئی ہے۔ مجھے ایسے جوانوں میں ایسی نجس اور غلط ترنگیں وہاں بھی پیدا ہوں گی جہاں وہ اپنا گھر بنائے گی۔ میں اپنی ممی ان کے سپرد کرتا ہوں۔ زندہ باد ممی۔ زندہ باد!۔ چلو غریب نواز کو ڈھونڈیں۔ رو رو کر اس نے اپنی جان ہلکان کرلی ہو گی۔ ان حیدر آبادیوں کی آنکھوں کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ وقت بے وقت ٹپکنے لگتا ہے۔ ‘‘ میں نے دیکھا، چڈے کی آنکھوں میں آنسو اس طرح تیر رہے تھے جس طرح مقتولوں کی لاشیں۔ Read the full article
0 notes
swstarone · 5 years ago
Photo
Tumblr media
رفال انڈیا کیسے پہنچا، اس کے پس منظر کی کہانی جگل پروہتنمائندہ بی بی سی نیوز14 منٹ قبل،EPAرواں سال 29 جولائی کو پانچ رفال جیٹ طیاروں کے فرانس سے انڈیا کے شہر امبالا پہنچنے کی کہانی سے پہلے آئیے اس کے پس پردہ واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔یہ اگست 2000 کی بات ہے۔انڈیا اور کارگل کی جنگ کو ختم ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔انڈین فضائیہ (آئی اے ایف) نے وزارت دفاع (ایم او ڈی) کو بتایا کہ اسے 126 میرج 2000 (||) لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہے۔تاکہ لڑاکا جہازوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انڈین فضائیہ نے محسوس کیا کہ میراج ایک کامیاب اور کثیر الجہتی لڑاکا طیارہ ہے۔،EPAتقریباً تین سال بعد جنوری سنہ 2004 میں اس تجویز کو وزارت دفاع نے سردخانے میں ڈال دیا۔ہم سنہ 2004 کی کہانی پر بعد میں واپس آئیں گے۔اب 29 جولائی سنہ 2020 کی بات کرتے ہیں۔ 29 جولائی کو فرانس میں بنے 36 رفال جیٹ طیاروں کی خریداری کے معاہدے میں پہلے پانچ جہاز امبالا پہنچے۔اس دن اپنے بیان میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا: 'ان طیاروں کی آمد ہماری فوجی تاریخ میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ یہ کثیرجہتی طیارہ انڈین فضائیہ کی صلاحیت میں انقلاب لائے گا۔'انھوں نے مزید کہا: 'رفال جیٹ طیارے صرف اس لیے خریدے جا سکے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے فرانس کے ساتھ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین براہ راست معاہدہ کرنے کا صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل ان کی خریداری طویل عرصے سے التوا میں تھی۔'لیکن راج ناتھ سنگھ کے اس بیان میں بہت سے پہلوؤں کے جواب نہیں ملتے ہیں۔کہ صرف 36 رفال جیٹ طیارے دو دہائی پرانے 136 لڑاکا طیاروں کی ضرورت کو کیسے پورا کرسکتے ہیں؟حکومت اس خلا کو کب پُر کرپائے گی؟،PAتعداد اہم ہےدسمبر 1998 سے دسمبر 2001 ء تک فضائیہ کے ائیر چیف مارشل اے وائی ٹپنیس بتاتے ہیں: 'ہمیں یہ لگ سکتا ہے کہ دو سکواڈرن بڑی چیز ہیں، لیکن ہماری لمبی سرحدوں کے پیش نظر یہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ میرے خیال میں ہمارے پاس رفال کے کم سے کم چار سے پانچ اسکواڈرن ہونے چاہئیں۔'جنھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رافال چینیوں کے پاس موجود ہر چیز سے زیادہ بہتر ہے ان کے لیے ٹپنیس نے کہا: 'چین کے پاس شاید اتنے اچھے طیارے نہ ہوں لیکن ان کے پاس تعداد ہے۔ اور یہ چیز اہمیت رکھتی ہے۔ آخر کار طیارہ صرف ایک پلیٹ فارم ہے جس میں ہتھیار ہوتے ہیں۔'نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر فضائیہ کے ایک اور سابق سربراہ نے کہا: 'فضائیہ کے لڑاکا جہازوں کی تعداد 40 سکواڈرن سے تیزی سے کم ہو کر 30 ہوگئی ہے۔ ہر سکواڈرن میں 18 لڑاکا طیارے ہوتے ہیں۔ ہم ایسا کیونکر ہونے دے سکتے ہیں جب کہ ہمارا دشمن ملک جارحانہ طور پر اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ مگ 21 ریٹائر ہوجائیں گے، اس کے بعد مگ 27 ریٹائر ہوجائیں گے۔ پھر جیگوار کا نمبر آجائے گا۔ اس کے مقابلے میں ایئر فورس کے پاس نئے جہاز نہیں آ رہے ہیں۔'اگرچہ سکواڈرن کی تعداد کم ہو رہی ہے تاہم رفال جیسے طیارے کی آمد کے بعد کیا ہمیں اتنا پریشان ہونا چاہیے؟ان کا کہنا ہے کہ 'زیادہ طیارے اور زیادہ طاقتور طیارے ڈیٹرینٹ کی طرح کام کریں گے۔ انڈیا کسی محاذ آرائی سے بچنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہمارا دفاع یا فوجی طاقت کم ہوتی رہی تو ایک دن ہمارے مخالف محاذ آرائی کے ذریعہ اپنے حق میں کام کریں گے۔ آسان الفاظ میں ہم پر جنگ مسلط کی جاسکتی ہے۔'انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا کہ صرف لڑاکا جہازوں کی تعداد کم ہو رہی ہے غلط ہوگا۔انھوں نے ایئر ٹو ایئر ریفیویلرز اور ایئر بورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول طیاروں کا نام لیا جن کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ہم ان کی خرید کے لیے 10-15 سال سے کوشاں ہیں لیکن ان کی خریداری ابھی کوسوں دور ہے۔'رفال سے آئی اے ایف کو اسٹریٹجک فائدہ ملتا ہے لیکن یہ کہنا قطعی غلط ہوگا کہ انڈین فضائیہ کی صلاحیت کم ہورہی ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ محض پانچ رفال جیٹ طیارے جو ملک تک پہنچے ہیں وہ اسٹریٹجک لحاظ سے بہتر حملہ آور صلاحیت فراہم کراتے ہیں۔ایئر مارشل ایس بی دیو آئی اے ایف کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انھوں نے مشرقی اور مغربی دونوں کمانڈ کی قیادت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'یہاں تک کہ یہ پانچ جیٹ طیارے مکمل طور پر اسلحوں سے لیس ہو کر ہمارے پاس آرہے ہیں اور وہ ہماری صلاحیتوں میں بہت حد تک اضافہ کریں گے۔ یہ ہماری حکمت عملی میں بھی اضافہ کریں گے۔'ان کی تشویش گھریلو محاذ کے متعلق زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درمیانے زمرے میں جدید لڑاکا طیارہ نہ بنا پانا تشویشناک ہے۔ درمیانے زمرے کا مطلب ہلکے لڑاکا طیارے نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 'انڈین ایروناٹکس لمیٹڈ، ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی، ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن جیسی گھریلو ایجنسیاں اس معاملے میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ اب تک ہماری اگلی نسل کے خود ساختہ فائٹر کے ڈیزائنوں کو حتمی شکل دی جانی چاہیے تھی اور ان پر کام شروع ہونا چاہیے تھا۔ ہم ان کوششوں میں کہاں کھڑے ہیں؟'گذشتہ سال اکتوبر میں ایئر فورس کے چیف آر کے ایس بھدوریا نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ لڑاکا طیاروں کی درآمد کے حق میں زیادہ نہیں ہیں۔،ECPAD handout via کیا انڈیا اگلی نسل کا لڑاکا طیارہ بنا سکتا ہے؟شاید ہی کوئی اس سوال کا جواب سی ڈی بالاجی سے بہتر طور پر دے سکے۔ بالا جی بحریہ کے کموڈور تھے، بعد میں انھوں نے محکمہ دفاع میں ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی (اے ڈی اے) کی سربراہی کی۔وہ کہتے ہیں: 'اگر ہم ملکی کوششوں کی بات کریں تو اس کے دو پہلو تحقیق اور پیداوار ہیں۔ پہلے تحقیق کی بات کرتے ہیں۔ انڈیا کی اگلی نسل کا ایڈوانس میڈیم جنگی طیارہ (اے ایم سی اے) ہے۔ اس کا بنیادی ڈیزائن تیار ہے اور گذشتہ پانچ سالوں سے ہم مرکزی حکومت سے مکمل پیمانے پر انجینئرنگ ڈویلپمنٹ (ایف ایس ای ڈی) کے لئے منظوری کے منتظر ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ایئر فورس اس میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے یا حکومت اس میں آگے نہیں آرہی ہے، لیکن حقائق اپنی کہانی خود بیان کرتے ہیں۔'جب منظوری حاصل کرنے میں اتنا وقت لگتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟وہ وضاحت کرتے ہیں: 'اس سے ہماری کوششوں پر اثر پڑتا ہے۔ ایک ٹیکنالوجی کا خلا پیدا ہوتا ہے اور ہمیں اس خلا کو پر کرنے کے لیے ڈیزائن کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا پڑتا ہے۔'پیداواری پہلو کے بارے میں انھوں نے کہا: 'ایچ اے ایل کے توسط سے زیادہ تیجس جیٹ طیارے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن میں یہاں ایک چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ سنہ 2016 میں وزارت دفاع نے انڈیا کے اپنے لڑاکا طیاروں کے حصول کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اس کے ذریعے 83 ایل سی اے ت��جس ایم کے 1 اے (جیٹ کا جدید ترین ورژن) تیار کیا جانا تھا۔ ابھی تک آرڈر مکمل نہیں ہوا ہے۔ دیسی مصنوعات کے لیے بھی اس طرح کی تاخیر ناقابل فہم ہے۔'،EPA،تصویر کا کیپشنانڈین فائٹر طیارہ مگپیسے کی قلتکوئی بھی ایر فورس جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہنگے اثاثوں میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتی ہے۔تاہم انڈین فضائیہ اسے حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزارت دفاع کے تھنک ٹینک منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلیسس کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر لکشمن کمار بہیرا کا کہنا ہے کہ 'گذشتہ برسوں کے دوران فوج، بحریہ اور فضائیہ کی جدید کاری پر شدید اثر پڑا ہے۔ ایئر فورس میں سب سے زیادہ سرمایہ لگتا ہے، ایسی صورتحال میں اسی کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔'ان کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ عہد کو پورا کرنے والے خرچ اور فوج کو دستیاب فنڈز کے مابین پچھلے کئی سالوں سے فرق بڑھتا جا رہا ہے۔سنہ 2018-19 میں یہ تقریباً 33 فیصد تھا جبکہ 2019-20 میں یہ 29 فیصد تھا۔پرانی کہانیتو اگست 2000 سے جنوری 2004 کے درمیان میراج 2000 کی آئی اے ایف کی تجویز اور وزارت کے اسے مسترد کرنے کی کہانی کیا ہے؟سرکاری دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ فضائیہ نے نہ صرف ایک یا دو بلکہ تین بار 126 میراج 2000 جیٹ طیارے خریدنے کے لیے وزارت کو راضی کرنے کی کوشش کی۔اس وقت رفال جیٹ طیاروں کا ذکر کرتے ہوئے انڈین فضائیہ نے دلیل دی تھی کہ میراج 2000 دوم نہ صرف سستے ثابت ہوں گے، بلکہ یہ جدید ترین بھی ہیں۔اس وقت کی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔یہ پرانا واقعہ اب شاید ہی کسی کو یاد ہو لیکن ایسا نہیں ہے کہ آئی اے ایف نے بھی اس بھلا دیا ہے۔فضائیہ کے ایک سابق سربراہ نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا: 'ہمیں 126 لڑاکا طیارے حاصل کرنے میں 15 سال لگے۔ پھر ایک دن ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں صرف 36 جیٹ طیارے ملنے جا رہے ہیں۔ اور اس میں بھی پانچ چھ سال لگیں گے۔ اور آج صرف پانچ طیارے آئے ہیں اور ہم خوشی سے کود رہے ہیں۔ کیوں؟' خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
soalmag · 2 months ago
Link
0 notes
humlog786-blog · 6 years ago
Text
پرواز کے بعد افسانہ قرۃ العین حیدر
Tumblr media
جیسے کہیں خواب میں جنجر راجرز یا ڈائنا ڈربن کی آواز میں ’’سان فرینڈ وویلی‘‘ کا نغمہ گایا جا رہا ہو اور پھر ایک دم سے آنکھ کھل جائے۔ یعنی وہ کچھ ایسا سا تھا جیسے مائیکل اینجلو نے ایک تصویر کو مکمل کرتے کرتے اُکتا کر یوں ہی چھوڑ دیا ہو اور خود کسی زیادہ دلچسپ موڈل کی طرف متوجہ ہو گیا ہو، لیکن پھر بھی اس کی سنجیدہ سی ہنسی کہہ رہی تھی کہ بھئی میں ایسا ہوں کہ دنیا کے سارے مصور اور سارے سنگ تراش اپنی پوری کوشش کے باوجود مجھ جیسا شاہکار نہیں بنا سکتے۔ چپکے چپکے مسکرائے جاؤ بے وقوفو! شاید تمھیں بعد میں افسوس کرنا پڑے۔ گرمی زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ پام کے پتوں پر جو مالی نے اوپر سے پانی گرایا تھا تو گرد کہیں کہیں سے دھل گئی تھی اور کہیں کہیں اسی طرح باقی تھی۔ اور بھیگتی ہوئی رات کوشش کر رہی تھی کہ کچھ رومینٹک سی بن جائے۔ وہ برفیلی لڑکی، جو ہمیشہ سفید غرارے اور سفید دوپٹے میں اپنے آپ کو سب سے بلند اور الگ سا محسوس کروانے پر مجبور کرتی تھی، بہت خاموشی سے ہکسلے کی ایک کتاب ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھے جا رہی تھی جس کے ایک لفظ کا مطلب بھی اس کی سمجھ میں نہ ٹھنس سکا تھا۔ وہ لیمپ کی سفید روشنی میں اتنی زرد اور غمگین نظر آ رہی تھی جیسے اس کے برگنڈی کیوٹکس کی ساری شیشیاں فرش پر گر کے ٹوٹ گئی ہوں یا اس کے فیڈو کو سخت زکام ہو گیا ہو--اور لگ رہا تھا جیسے ایک چھوٹے سے گلیشیر پر آفتاب کی کرنیں بکھر رہی ہیں۔ چنانچہ اس دوسری آتشیں لڑکی نے ، جو سینئر بی.ایس.سی کی طالب علم ہونے کی وجہ سے زیادہ پریکٹیکل تھی اور جو اس وقت برآمدے کے سبز جنگلے پر بیٹھی گملے میں سے ایک شاخ توڑ کر اس کی کمپاؤنڈ اور ڈبل کمپاؤنڈ پتیوں کے مطالعے میں مصروف تھی، اس برفیلی لڑکی کو یہ رائے دی تھی کہ اگر گرمی زیادہ ہے تو ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ پڑھنے کے بجائے سو جاؤ یا پھر نئے ریفریجریٹر میں ٹھنس کر بیٹھ جاؤ، اس کا اثر دماغ کے لیے مفید ہو گا لیکن چونکہ یہ تجویز قطعی ناقابلِ عمل تھی اور کوئی دوسرا مشورہ اس سائنس کے طالب علم کے ذہن میں اس وقت نہیں آ رہا تھا اس لیے وہ برفیلی لڑکی رخشندہ سلطانہ اسی طرح ہکسلے سے دماغ لڑاتی رہی اور وہ آتشیں لڑکی شاہندہ بانو پیر ہلا ہلا کر ایک گیت گانے لگی جو اس نے فرسٹ اسٹینڈرڈ میں سیکھا تھا اور جس کا مطلب تھا کہ جب شاہ جارج کے سرخ لباس والے سپاہیوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز بازگشت ہماری پرانی اسکاٹسز پہاڑیوں کے سنّاٹے میں ڈوب جائے گی اور اپریل کے مہتاب کا طلائی بجرا موسم بہار کے آسمانوں کی نیلی لہروں میں تیرتا ہوا تمھارے باورچی خانے کی چمنی کے اوپر پہنچ جائے گا اس وقت تم وادی کے نشیب میں میرے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنوگی۔ اے سرائے کے مالک کی سیاہ آنکھوں اور سرخ لبوں والی بیٹی! لیکن رات خاصی گرم ہوتی جا رہی تھی اور ماہم کا ایک کونہ، جو سمندر میں دور تک نکلا چلا گیا تھا، اس پر ناریل کے جھنڈ کے پیچھے سے چاند طلوع ہو رہا تھا اور دور ایک جزیرے پر ایستادہ پرانے کیتھیڈرل میں گھنٹے کی گونج اور دعائے نیم شبی کی لہریں لرزاں تھیں اور اس وقت مائیکل اینجلو کے ادھورے سے شاہکار جم کو ایک بڑی عجیب سی ناقابلِ تشریح کوفت اور الجھن سی محسوس ہو رہی تھی جس کا تجزیہ وہ کسی طرح بھی نہ کرسکتا تھا-- حالانکہ وہ مطمئن تھا کہ ایسے حادثے وہاں تقریباً روز شام کو ہو جاتے ہیں -- پھر بھی وہ یک لخت بہت پریشان سا ہو گیا تھا۔ کیونکہ آج دوپہر اس کو بہت تلخی سے یہ احساس ہوا تھا کہ وہ مغرور، پھولے پھولے بالوں والی برفیلی سی لڑکی، جوہر وقت اپنے مجسموں پر جھکی رہتی ہے ، اوروں سے کس قدر زیادہ مختلف ہے۔ جب اس نے اس چھوٹے سے قد والی لڑکی سے ، جس کی چھوٹی سی ناک پر بے اختیار پیار آ جاتا تھا اور جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد احتیاط سے پاؤڈر کر لیتی تھی اور جس کی بڑے سے گھیر کی زرد ٹوپی پر گہرے سبز شنائل کی ٹہنیوں سپندھے ہوئے چیری کے مصنوعی شگوفے سج رہے تھے ، بے حد اخلاق کے لہجے میں پوچھا تھا کہ میرے ساتھ شام کو کھانا کھانے چلو گی تو اس نے جواب دیا تھا: ’’ہاں چلو۔‘‘ اور پھر وہ اس کے ساتھ ہلکے پھلکے قدموں سے زینہ طے کر نیچے سڑک پر آ گئی تھی اور بس اسٹینڈ کی طرف بڑھتے ہوئے اس چھوٹی سی لڑکی نے جس کی طرح کی لڑکیاں اپالو بندر یا کناٹ پلیس میں تیزی سے ادھر ادھر جاتی نظر آتی ہیں ، اس سے پوچھا تھا: ’’تم نے اسکول کب سے جوائن کیا ہے ؟‘‘ ’’ابھی ایک ٹرم بھی پوری نہیں ہوئی۔‘‘ اور نام کیا ہے تمھارا؟‘‘ ’’مگ-- میگڈیلین ڈی کوڈرا۔‘‘ ’’اور تمھارا؟‘‘ ’’جم-- جمال-- جمال انور -- جو تم پسند کرو۔‘‘ اور پھر وہ دونوں بس اسٹیشن کے مجمع میں رل مل گئے تھے اور ان کے جانے کے بعد برفیلی لڑکی اپنے بال پیچھے کو سمیٹ کر اپنے دن بھر کے کام کو غور سے دیکھتی ہوئی اپنی کار کے انتظار میں کلاس روم کی کھڑکی میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ اور وہ پیاری سی ناک والی مگ روز، شام کی طرح، خداوند خدا کی کنواری ماں کی تصویر کے آگے شمع روشن کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ مجسموں میں اگر احساس زندگی پیدا ہو جائے تو بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ اور پھر بھلا نتائج پر کون غور کرتا پھرے۔ طوفانی لہروں کا ایک ریلا جو ساحلوں سے ٹکراتا پھر رہا تھا سیاہ آنکھوں والا فن کار کی گرم سانسوں نے اس سرد اور بے روح مجسمے میں جان ڈال دی تھی۔ گلیشیا کی طرح -- لیکن یہ بہت پرانی بات تھی۔ کاش کارل مسل ٹوکے نیچے اس سے کبھی نہ ملتا۔ بیگ، جس نے اپنی عمران سرد مجسموں کی معیت میں گزار دی تھی جو اس کے چھوٹے سے قصبے کی خانقاہ کے بھورے پتھروں والے اندھیرے ہال اور دوسرے کمروں میں پھیلے پڑے تھے۔ برسوں سے ایک ہی طرح سینٹ اگنس، سینٹ فرانس اور سینٹ جارج--زندگی منجمد پتھروں کا ایک ڈھیر تھی اور پیدا ہونے کے جرم کی پاداش، Ave Maria کی خوابیدہ موسیقی کی کتاب کا نیلا ربن--پر بہت پرانی بات تھی یہ۔ پھر اس کی آنکھیں نیوریلجیا کے شدید درد سے بند ہونے لگیں اور وہ اپنے ننھے سے سفید پلنگ پر گر گئی۔ کارل اور اس کا گتار، کارل کی رابرٹ ٹیلر جیسی ناک جس پر ایک شام روشن ایرانی نے غصے میں آ کر ایک مکہ رسید کیا تھا۔ روشن ایرانی اور اعظم مسعود اور آفتاب، جم کے وہ تین بوہیمین قسم کے دوست جو دن بھر برٹش نیوز ایجنسی میں کام کرنے کے بعد شام کو پیانو بجا بجا کر شور مچایا کرتے تھے۔ پھر گیٹ وے آف انڈیا کی محرابوں کے وہ اندھیرے سائے ، وہ ہسپانوی سرینیڈ۔ کلاس میں وہ برفیلی لڑکی ایک آدھ بار بے پرواہی سے نظر اٹھا کر اسے دیکھتی اور پھر بڑی مصروفیت سے مجسمے پر جھک کر اس کے پیر تراشنے لگتی اور مائیکل ایبخلو کے شاہکار کے اودے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر کے رہ جاتی۔ اور مئی کی بہت سی راتیں اسی طرح گزر گئیں۔ بولیوار کے درختوں کے سائے میں ، کھلے آسمان اور چمکتے ستاروں کے نیچے ، موسم گرما کا جشن منانے والے رخشندہ کو وہ سارے پرانے گیت یاد دلائے دے رہے تھے جن کی دھنیں سنتے ہی اس کا دل ڈوب سا جاتا تھا۔ ٹارا لارا-- ٹارا لارا جون پیل-- روز ماری-- گڈ نائٹ مائی لو-- مرایا ایلینی-- چاندنی میں ڈوبے ہوئے سمندری ریت کے ٹھنڈے ٹیلوں پر سے دوسرے ساتھیوں کے گیتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ریت پر ٹہلتے ٹہلتے تھک کر رخشندہ کہنے لگی: ’’برج ماتا کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سب ایک دوسرے کو غمگین بنائے بغیر زندگی گزار سکیں اور سارے کام ہمیشہ ٹھیک ٹھیک ہوا کریں۔ دنیا کے یہ عقل مند لوگ--‘‘ رات خاموش ہوتی جا رہی تھی۔ برج کو اس سمے خیال آیا کہ اس نے ایک فلم میں ، شاید ’’بلڈ اینڈ سینڈ‘‘ میں ، ایک بے حد پیارا جملہ سنا تھا جو اس کو اب تک یاد تھا: "Madam, walking along in life with you has been a gracious time" رخشندہ اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور ان کے قدموں کے نشان ریت پر ان کے پیچھے پیچھے بنتے جا رہے تھے اور بحیرۂ عرب کی نیلی نیلی ٹھنڈی موجیں ان کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ رخشندہ رانی، چاند ہنس رہا ہے ، تم بھی مسکرا دو-- اوہ انکل ٹوبی-- تم اتنے اچھے سے ہو۔ میں سچ مچ بے انتہا بے وقوف ہو گئی ہوں۔ کیونکہ اس نے سنا تھا کہ اس کا ہونے والا منگیتر ممبئی اسکول آف اکنومکس سے ڈگری لینے کے بعد گھر واپس جانے کے بجائے یہاں صرف اس لیے رہتا ہے کیونکہ یہاں اس کی ایک کیپ موجود ہے اور وہ ڈرنک بھی کرتا ہے اور موسم گرما کی چاندنی راتوں میں اپنے بوہیمین دوستوں کے ساتھ اپنی سرخ گرجتی ہوئی کار میں ورسووا اور جو ہو کی سڑکوں پر مارا مارا پھر تا ہے -- اور آتشیں لڑکی نے چلا کر کہا تھا: اوہ تم کیسی پاگل ہو۔ اوہ خد-- اوہ خد-- وہ کیسے دن تھے -- وہ کیا زمانہ تھا۔ انیس بیس سے لے کر چوبیس پچیس سال تک کی وہ عمریں -- ذرا ذرا سی بات، معمولی سے واقعات، جذبات کی لہریں ، بڑی زبردست ٹریجڈی یا کامیڈی یا میلوڈراما معلوم ہوتی تھیں۔ وہ چاروں دوست ایک دوسرے کے خیالات و افکار، دکھ سکھ اور محبتوں کے شریک۔ مہینے کے آخر میں رومن رولاں یا شاکی کتابیں خریدنے کے لیے اپنا فاؤنٹین پن بیچنے کو تیار۔مگ کی حفاظت اور عزت کی خاطر کارل کی دل کش ناک پر مکہ رسید کرنے کو مستعد۔ شام کو مادرِ مقدس کی تصویر کے سامنے شمع جلانے کے بعد مگ ان کے لیے چائے تیار کرتی۔ ان کے اور بہت سے دوست آتے اور وہ سب دیوان پر، صوفے پر، قالینوں پر بیٹھ کر مصری تمباکو کا دھواں اڑاتے ہوئے جانے کیا کیا باتیں کرتے رہتے -- لمبی لمبی بحثیں اور تنقیدیں جن کو وہ بالکل نہ سمجھ سکتی۔ آسکر وائلڈ کی زندگی، ڈی.ایچ. لارنس، لیگی وزارتوں کی چپقلش، ریڈ اسٹار اور رشیا، بنگال، خدا اور مذہب-- اور اکثر وہ جوش میں آ کر ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے کہ وہ خوف سے لرز اٹھتی اور مریم کی طرف عفو طلب نگاہیں اٹھا دیتی۔ پھر کوئی چیز ان کی مرضی کے خلاف ہو جاتی تو وہ اسے ڈانٹ دیتے تھے۔ مہینہ ختم ہونے سے بہت پہلے اگر پٹرول کے کوپن تمام ہو جائے یا بار بار ری ٹچنگ کرنے پر بھی کوئی تصویر درست نہ ہو سکتی یا فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے سے قبل ہی پکنکوں اور سینما کے ٹکٹوں پر سارا روپیہ ختم ہو جاتا تو وہ چاروں فوراً اپنے آپ کو wrecks of life سمجھنے پر مستعد ہو جاتے اور یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے کہ وہ فن کار ہیں اس لیے زندگی کے ان زبردست مصائب میں گرفتار ہیں – اور مگ کو ان کے بچپن پر پیار آ جاتا۔ --اومیگڈلین-- او موسم گل کے نیلے پرندو-- بحیرۂ عرب سے اٹھنے والے بھاری بھاری بادل 23 کالج روڈ، ماٹنگا کے اس فلیٹ کی جانب اڑتے چلے آ رہے تھے جس کے نیچے ایک سیاہ بیوک آ کر رکی۔ اور زینے طے کرنے کے بعد دروازے پر پہنچ کر کسی نے زور سے گھنٹی بجائی اور چمکیلے پتھروں سے سجی ہوئی دو شان دار خواتین اندر آ کر صوفے پر اس طرح بیٹھ گئیں گویا ایسا کرنے کا انھیں پورا پورا حق حاصل تھا۔ تین دوست گھبرا کر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور پھر کمرے میں ایک عجیب حساس سی خاموشی طاری ہو گئی۔ کھڑکیوں کے باہر بادل آہستہ آہستہ گرج رہے تھے۔ ’’آپ جمال انور احمد کے دوست ہیں نا؟‘‘ اس خاتون نے ، جس کے اونچے اونچے ہالی ووڈ اسٹائل کے بال تھے ، ساری کے آنچل کو بازو پر لپیٹتے ہوئے گہری آواز میں پوچھا۔ وہی ڈرامہ شروع ہونے والا تھا جو ایسے موقعوں پر آج تک ہزاروں مرتبہ کھیلا جا چکا ہے۔ ’’وہ عورت کون ہے جس کے ساتھ وہ یہاں رہتا ہے ؟‘‘ دوسری، زیادہ فر��ہ خاتون نے سوال کیا۔ عورت-- انھوں نے مگ کو ایک پیاری سی، معصوم سی، رنگین تصویر کے سوائے اور کسی زاویۂ نظر سے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ عورت-- اس کے لیے بڑا بھونڈا لفظ تھ-- وہ تو یاسمین کی کلیوں کا خواب تھی۔ بس وہ سوچنے لگے کہ ان شہزادیوں جیسی عالی شان خواتین سے کن الفاظ میں اور کس طریقے سے بات کریں۔ پہلی کم عمر خاتون نے یہ خیال کر کے کہ شاید یہ جرنلسٹ اور فن کار ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ذرا نرمی سے پوچھا: ’’میرا مطلب ہے کہ وہ خاتون کون ہیں اور یہاں کب سے ......‘‘ مگ کے لیے ’’خاتون‘‘ کا لفظ بھی بڑا عجیب سا معلوم ہوا۔ مگ تو بس مگ تھی۔ یاسمین کی ایک بڑی سی کلی۔ ’’آپ انھیں جانتے ہیں ؟‘‘ ’’جی ہاں ، بہت اچھی طرح سے۔‘‘ ’’معلوم ہوا ہے کہ ایک مس میگڈلین ڈی کورڈ--‘‘ ’’جی-- جی ہاں درست بالکل-- جی--‘‘ وہ تینوں ایک دم پھر پریشان ہو گئے۔ معاف فرمائیے گا یہ-- یہ ہم کو نہیں معلوم۔‘‘ ’’خوب-- اور انھیں آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ‘‘ ’’کیا یہ لڑکی کسی با عزت طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘ دوسری خاتون نے بزرگانہ بلندی سے کہا۔ با عزت طبقہ-- مگ کے متعلق یہ ایک نیا انکشاف تھا جو پہلے ان کے دماغ میں کبھی نہ آیا تھا۔ ان تینوں میں سے ایک چپکے سے دیوان پر سے اٹھ کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ ’’با عزت-- ار-- دیکھیے اس لفظ کو مختلف معنوں میں لیا جا سکتا ہے -- خصوصاً اس شہر کی سوسائٹی میں -- یعنی کہ-- ار--‘‘ اعظم مسعود سینٹ زیویر میں لاجک کا بہت اچھا طالب علم رہ چکا تھا۔ دل میں اس نے کہا کہ کم بخت جم کا بچہ خود تو غائب ہو گیا اور ہم اس مصیبت میں پھنس گئے۔ آنے دو گدھے کو۔ زینے کی طرف کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور وہ اندر آئی۔ اور اس نے ان معزز مہمانوں کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا اور ذرا پیچھے کو ہٹ گئی۔ ’’آپ مس کورڈا ہیں ؟میرا مطلب ہے -- معاف کیجیے گا ہم آپ کے گھر میں اس طرح بلا اجازت اور بغیر اطلاع آ گئے لیکن۔ ۔۔‘‘ ’’مادموزیل آپ غلطی پر ہیں۔ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میرے پاس فرسٹ فلور پر صرف ایک کمرہ ہے۔ میں ان لوگوں کے لیے چائے اور کھانا تیار کرنے یہاں آئی ہوں۔ ‘‘ اور ان دونوں اونچی خواتین نے اپنی بلندی پر سے جھک کر دیکھا کہ وہ محض ایک سفید فام باورچن ہے -- یعنی یہ بڑی بڑی آنکھوں والی بھولی سی لڑکی-- اسی کی طرح کی دوسری سفید فام یہودی اور اینگلو انڈین لڑکیوں میں سے ایک-- اُف۔ نفرت کی پوٹ۔گفتگو بہت طول کھینچ رہی تھی۔ بڑی خاتون نے صوفے پر سے اٹھتے ہوئے کہا: ’’دیکھو لڑکی-- کیا تم میرے لڑکے کو پسند کرتی ہو؟‘‘ کیسا بے وقوفی کا سوال تھا۔ اس نے سوچا، بھلا جم کو کون پسند نہیں کرے گا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں بے ساختگی سے اوپر اٹھا کر پوچھا: ’’کیا جم خود آپ کو پسند نہیں ؟‘‘ ’’--اوہ-- لیکن میری بچی جم تو خود میرا اپنا لڑکا ہے۔‘‘ کمرے میں پھر وہی عجیب سا سکوت چھا گیا۔ ’’اور مجھے پتا چلا ہے کہ میرا لڑکا تم سے شادی کرنے کو بھی تیار ہے -- جانتی ہو اس کے کیا معنی ہیں -- او راس کا نتیجہ کیا ہو گا؟‘‘ اوہ -- او خد-- اب تو یہ سب کچھ برداشت سے قطعی باہر تھ-- روشن ایرانی بلّی کی طرح کشن ایک طرف پھینک کر دیوان پر سے کھڑا ہو گیا اور مگ کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ جیسے قیمتی چمکیلے پتھروں میں سجی ہوئی ساڑھے تین سو اونچی اونچی با عزت خواتین چاروں طرف سے مگ پر حملہ کرنے والی تھیں۔ ہوا کے زور سے دروازوں کے پٹ بند ہو گئے۔ باہر بارش کے پہلے قطرے کھڑکی کے شیشیوں سے ٹکرا رہے تھے۔ -- تم خوب صورت تصویریں بنا کر ان میں رنگ بھر دو اور وہ ہمیشہ ان تصویروں کی اصلیت کا یقین کرتی رہے گی۔ تمھارا کام صرف یہی ہے کہ اس سے خوش نما، خوش گوار ستاروں کی باتیں کرتے رہو۔ اس کی ماں نے اسے بچپن میں بتایا تھا کہ شیطان کی اتنی لمبی دم ہے ، اتنے بڑے سرخ کان ہیں ، ایسے نوکیلے سینگ ہیں۔ وہ بہت ہی برا ہے اور دنیا جب بہت ہی بری جگہ بن گئی تو ایک طوفان آیا اور نوح، جو ایک بہت عمدہ انسان تھا، اپنے با عزت خاندان سمیت بچ رہ-- اور پھر ابراہیم اور سلیمان اور داؤد اور موسیٰ-- جو سب ایک سے ایک اچھے لوگ تھے -- دنیا کو ٹھیک کرنے کے لیے آئے۔ خود خدا کو زمین پر آ کر جھیل کی سطح پر چلنا پڑ-- وہ ان سب باتوں پر یقین رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چھوٹے بچے اپنے نرسری کے قصوں اور پیٹر پین اور اسنو وائٹ کی کہانیوں کو سچ سمجھتے ہیں۔ لیکن بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے زیتون کی ڈالیاں اور للّی کے پھول چھین کر انھیں چپکے سے کانٹوں کا تاج پہنا دیا جاتا ہے اور پھر ساری حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ تم اس سے وعدہ کرتے ہو کہ آج رات کو سارے چاند ستارے توڑ کر اس کے آگے ڈال دو گے۔ لیکن اسی رات کو اولمپس پر رہنے والے خداؤں کی بیویاں اس سے یہ وعدہ بھی چھین لیتی ہیں۔ اور تم ان ٹوٹے ہوئے چاند ستاروں کا سامنا نہیں کر سکتے -- روشن بیٹے ذرا اپنے بلند و مقدس یزداں کو آواز دینا۔ اعظم مسعود نے تھک کر پائپ جلا لیا اور وہ سب خاموش ہو گئے۔ وہ مصور تھے ، انگریزی کے عمدہ جرنلسٹ تھے ، معاشیات اور ادبیات میں ایم.اے . کر چکے تھے ، پولکا اور والز خوب کرتے تھے ، اور سی.سی.آئی. کے سوئمنگ ٹینک کے کنارے گھنٹوں پڑے رہا کرتے تھے لیکن میگڈلین اپنا گتار سنبھال کر کارل کے ساتھ اپنی قسمت آزمائی کرنے کہیں اور، کسی دوسرے دیس کو چلی گئی اور وہ اسی طرح دیوار پر پڑے رومن رولاں اور شاکا مطالعہ کرتے رہے۔ ان دونوں نے میٹرو میں نیچے اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر مرحوم لیزلی ہاورڈ پر افسوس کرنا شروع ہی کیا تھا کہ برابر کی نشست پر سے کسی نے پوچھا: ’’مادام! یہ سیٹ ریزرو تو نہیں ؟‘‘ ’’جی نہیں۔ ‘‘ رخشندہ نے ادھر دیکھے بغیر جواب دیا اور پھر برج کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی۔ نو وارد نے کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ جلاتے ہوئے پھر پوچھا: مادام! دھواں آپ کو ناگوار تو نہیں گزرے گا۔‘‘ ’’جی نہیں۔ ‘‘ اب کے سگریٹ لائٹر کی روشنی میں رخشندہ نے اس کی طر ف نظر کی اور اسے لگا جیسے سارا میٹرو ڈائنامیٹ سے اڑ کر دور فضاؤں میں لڑھکتا جا رہا ہے اور برج لال کھڑے ہو کر ڈریس سرکل میں جانے کے لیے شاہندہ اور شیاملا کا انتظار کرنے لگ-- ’’رشی رانی جلدی اٹھو۔‘‘ مجمع زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ تیزی سے گینگ وے کو پار کر کے زینے پر چڑھنے لگے۔ وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھا دوسری طرف دیکھتا رہا۔ فلم شروع ہو چکی تھی۔ پردے پر برٹش مووی ٹون نیوز کی تصویریں کوندنے لگیں۔ ’’اوہ برج ماما جلدی اوپر چڑھیے۔‘‘ رخشندہ کی برفیلی پیشانی پر پانی کے ننھے منے قطرے نہ جانے کہاں سے آ گئے۔ برج نے اس کا سفید ہاتھ پکڑ کر اسے سب سے اوپر سیڑھی پر کھینچ لیا اور وہ مجمعے کے ریلے کے ساتھ ایک جھونک سے اس کے اوپر گرسی گئی۔ وہ اندھیرے میں شیاملا اور شاہندہ کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑایا۔ وہ دیر تک اتنی سی بات کو سوچتی رہی۔ پھر اس کا جی چاہا کہ ایک زبردست زلزلے میں یہ سارا میٹرو ٹوٹ کر گر جائے اور برج اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر کہیں دور بھاگ جائے -- گرتے پہاڑوں اور ٹوٹتی چٹانوں اور شور مچاتے ہوئے انسانوں سے بچا کر بہت دور-- اور پھر وہ -- وہ دوسرا شخص-- وہ مائیکل اینجلو کا شاہکار-- نیچے بیٹھا تھ-- چند منٹ قبل اس کے بہت نزدیک-- اور پھر دوسری رات کو آتشیں لڑکی نے اسے تاج میں دیکھا اور اس کا جی چاہا کہ ایک تیز آگ میں اسے جلا کر راکھ کر ڈالے ، اس کی بکھری ہوئی مسکراہٹ کو، اس کے الجھے الجھے بالوں کو-- وہ اس صوفے پر بیٹھ آئی تھی، اس گیلری میں سے گزری تھی، ان کشنوں کو چھو چکی تھی جن پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی شامیں گزار چکا تھا جب کہ وہ دوسری برفیلی رخشندہ خاموشی اور سکون سے ہکسلے اور بیورلی نکلسن پڑھتی رہی تھی۔ ’’مس ڈی کورڈا کیسی ہیں ؟‘‘ اس نے پوچھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ جاچکی ہے۔ ’’اچھی ہیں۔ شکریہ!‘‘ اس نے اسی سکون سے جواب دیا۔ ’’آپ میرے ساتھ ایک راؤنڈ لیں گی؟‘‘ ’’آئیے --‘‘ اس نے کہا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ بہت پریکٹیکل رہتی تھی — اور جمال کو تعجب ہوا کہ وہ آسانی سے اس کے ساتھ فلور پر کیسے آ گئی۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ رمبا کی موومنٹ کے ساتھ ساتھ آگ کے شعلوں میں گھوم رہا ہے۔ اسے سرد چھینٹوں کی ضرورت تھی لیکن شعلے بہت اونچے اٹھتے جا رہے تھے۔ رقص ہوتا رہا۔ کلارنٹ پر ایک نغمہ پوری تیزی سے بج رہا تھا۔ اس کی تھکی ہوئی نظریں خود بخود پلائی ووڈ کی ان دیواروں کی طرف اٹھ گئیں جن کے دروازوں پر گہرے سبز پردے پڑے تھے اور جن کے سامنے فرن کی ڈالیاں برقی پنکھوں کی ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں۔ سارے ریڈیو اسٹیشن آدھی رات کا گجر بجا چکے تھے۔ باغ کی پتیاں اور سمندر کی لہریں خوابستان کے جادو میں ڈوبتی جا رہی تھیں۔ کسی نے بڑی پیاری آواز میں کہا: ’’میں آ سکتا ہوں ؟‘‘ وہ جواب تک برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹی ’’پوائنٹ کاؤنٹر پوائنٹ‘‘ ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اپنا برف جیسا لباس سمیٹ کر جنگلے پر جھک گئی۔ ’’کون ہے ؟‘‘ اس نے ذرا گھبرا کر برساتی کی طرف دیکھا۔ ’’اگر آپ کہیں گی تو میں ابھی ابھی فوراً واپس چلا جاؤں۔ ‘‘ اس کا بات کرنے کا انداز بے حد دل کش تھا۔ وہ اور زیادہ پریشان ہو گئی-- ’’ماہم سے باندرہ کا قریب ترین راستہ--‘‘ ’’جی نہیں۔ میں راستے کی تلاش میں آپ سے مدد کی درخواست نہیں کر رہ--‘‘ ’’--تو کی-- کیا پٹرول ختم ہو گیا ہے ؟‘‘ ’’جی نہیں میرے پاس ڈھیروں گیلنوں پٹرول موجود ہے۔‘‘ ’’پھر -- پھر-- آپ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ ’’میں ! کچھ بھی نہیں -- میں سامنے سے گزر رہا تھا، آپ کو بادام کی شاخوں میں سے برآمدے میں بیٹھا دیکھا تو بس چلا آیا اندر-- جاؤں واپس؟‘‘ ’’اوہ گوش-- آپ نے اتنی دور سے مجھے کیسے دیکھ لیا۔ مشاہدہ بہت تیز ہے۔‘‘ ’’جی ہاں ، مشاہدے کا میں ماہر ہوں۔ بہت ��مدہ عادت ہے۔ یہ زندگی بہت دلچسپ ہو جاتی ہے اس سے ایسی ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں۔ اور اجازت دیجیے انگریزی میں کہوں کہ ہم ایسی چیزوں کی روح میں گھس سکتے ہیں جن کو دیکھنے کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نہیں -- سگریٹ پی لوں ؟ شکریہ--‘‘ ’’نہ جانے آپ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ خصوصاً جب کہ آپ مجھے قطعی جانتے بھی نہیں۔ بہت دلچسپ اور عقل مند معلوم ہوتے ہیں آپ--‘‘ ’’ جی ہاں شکر ہے۔ غالباً آپ پہلی خوب صورت لڑکی ہیں جس نے ایک عقل مند لڑکے کے سامنے یہ اقرار کیا ہے ورنہ عموماً مجھے آپ جیسی لڑکیوں سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنی عقل کے مقابلے میں کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ ’’بیٹھ جائیے ، اس آرام کرسی پر-- مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہیں اور اس وقت، اس گرم رات میں ، بادام کی شاخوں کی سرسراہٹ کے نیچے اس طرح باتیں کر رہے ہیں جیسے ہمیشہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں -- نا؟‘‘ ’’جی ہاں -- بہت عجیب-- دنیا میں بہت سی باتیں حد سے زیادہ عجیب ہوتی ہیں جن کا بالکل آپ کو احساس نہیں ہوتا-- ار -- دیکھیے لڑکیوں میں ہیرو ورشپ کا مادہ ایک بڑی سخت کمزوری ہے --‘‘ ’’ہیرو ورشپ؟‘‘ ’’جی-- اس وقت آپ مجھے بس چپکے چپکے ایڈمائر کیے جا رہی ہیں حالانکہ ابھی چند لمحے قبل جب آپ تصور میں جم کے ساتھ مسوری میں سیب کے درختوں کے نیچے بیٹھتی تھیں تو میرے دخل در معقولات پر آپ کو زوروں کا غصہ آگیا تھا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ ’’سیب کے درخت؟‘‘ ’’جی ہاں۔ سیب کے درخت!‘‘ ’’مجھے یقین ہے کہ--‘‘ ’’جی-- کہ رات گرم ہے اور چاند کے جادو کا اثر شاید مجھ پر بھی ہو گیا ہے۔ اسی لیے میں اپنے بستر پر آرام کرنے کے بجائے ماہیم کی خاموش سڑکوں پر مارے مارے پھر کر خوب صورت لڑکیوں کے بنگلوں میں گھس کے ان سے الٹی الٹی باتیں کرنے کا عادی ہو گیا ہوں --‘‘ ’’اوہ گوش--!‘‘ ’’دیکھیے شاید آپ نے شمال کے برفانی کوہستانوں میں خوابیدہ کسی کانونٹ میں اب تک اپنی عمر گزاری ہے۔ کم از کم آپ نے سینٹ زیویرز میں تو کبھی نہیں پڑھا۔‘‘ ’’آپ نے یہ کیسے اندازہ لگایا؟‘‘ ’’کیوں کہ آپ بات بات پر اوہ گوش کہہ کر خدا کی مدد چاہتی ہیں حالانکہ میں آپ کو--یقین دلاتا ہوں کہ ایسی خوش گوار رات میں خدا کو ہماری باتوں پر غور کرنے یا ان میں مداخلت کرنے کی قطعی ضروری یا فرصت نہیں اور یہ بھی کہ سینٹ زیویرز کی لڑکیاں زیادہ تیز اور صاف گو ہوتی ہیں -- آپ جے .جے . اسکول میں ہیں نا؟‘‘ وہ اسی طرح سگریٹ کے حلقے بنا کر کہتا رہا: ’’دلچسپ خیال ہے۔ سیب کے درختوں کے جھنڈ میں ملکہ پکھراج کے ریکارڈ بج رہے ہوں یا کوئی درگا میں گا رہا ہو، سکھی موری روم جھم، سکھی موری روم جھم بدرو-- پسند ہے درگا کا خیال-- دیوی بھجو درگا بھوانی --‘‘ ’’لیکن کم از کم مجھے اپنا نام تو بتا دیجیے --‘‘ ’’میرا نام-- برج راج بہادر وارشنے -- جمال انور -- روشن ایرانی-- جو چاہو سمجھ لو-- ادھر دیکھو-- میں تمھارا خواب ہوں اور تم چاندنی اور پھولوں کا گیت-- پر مجھ میں اور ان لہروں میں ، جو تمھارے برآمدے سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں ، ایک چھوٹا سا فرق ہے۔ یہ دنیا سے بغاوت کرنا چاہتی ہیں اور کچھ نہیں کر پاتیں۔ میں دنیا سے بغاوت نہیں کرتا لیکن چاندنی رات میں تمھارے جنگلے پر آ کر بیٹھ جاتا ہوں اور پھر یہ لہریں ساحل کو چھوڑ کر دور سمندر کی گہرائیوں میں جا کر کھو جاتی ہیں۔ سیب کے باغ میں چپکے سے خزاں گھس آتی ہے۔ بادام کی کلیاں اور سبز پتے خشک ہو کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ اور ملکہ پکھراج کے ریکارڈ اور تان پورے کے تار ٹوٹ جاتے ہیں ایک دن-- اور آخر میں نیلے پروں والی چڑیاں خزاں زدہ شاخوں پر سے اپنے پر پھیلا کر بہار کے تعاقب میں دور جنوب کے ہرے مرغزاروں کی جانب اڑ جاتی ہیں -- جب خواب پچھلی رات کی چاندنی کی طرح پھیکے پڑنے لگتے ہیں اس وقت کی بے کیفی اور الجھن کا خیال کرو۔ سچ مچ کی مسرت تم کہیں بھی نہیں پا سکتیں رخشندہ بانو۔ شاید تم سوچ رہی ہو کہ اگر میگڈیلن تمھیں مل جائے تو تم اپنی برفانی بلندی پر سے اس سے کہو: کارل ریوبن کے ساتھ کہیں بہت دور چلی جا اے بے حقیقت لڑکی-- اس کا گتار اور تیری آواز-- یہی تیرا بہترین راستہ ہے۔ برج راج بہادر سے تم کہو: انکل ٹوبی آپ میری دوست شیاملا کے ایک خوب صورت اور ڈیشنگ سے ماموں ہیں جو اپنی سیاہ ڈی.کے .ڈبلو. خوب تیز چلاتے ہیں اور بس-- آپ بھی تشریف لے جائیے۔ کیونکہ مسوری میں ہنی مون کے لیے سوائے میں ایک پورا سوٹ رزرو کرا لیا گیا ہے جس کے پیچھے سیب کے درختوں کا جھنڈ-‘‘ ’’اوہ!‘‘ ’’اب تمھیں نیند آ رہی ہے۔ اگر تم مجھے یاد کرو گی تو میں پھر کسی ایسی ہی چاندنی رات میں الہٰ دین کے دیو کی طرح تمھارے خواب میں آ جاؤں گا۔ شب بخیر رخشندہ سلطانہ۔‘‘ وہ اطمینان سے جنگلے پر سے کود کر باغ کے اندھیرے میں اتر گیا اور پھر اس کے قدموں کی چاپ سنسان سڑک کی خاموشی میں کھو گئی۔ ’’مہربانی سے ادھر ہی رہیے آپ--‘‘ --اور جم کو جواب تک یہ سوچ رہا تھ-- جانے کیا سوچ رہا تھا --جانے کیا سوچ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوا برف کے سارے پہاڑ اور ساری چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گر پڑی ہیں اور ان کے بوجھ میں دب کر وہ بے تحاشا خوب صورتی اور نفاست اور سجا ہوا کمرہ نیچے گرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ سنگھار میز کے اسٹول پر بیٹھی ایک کتاب کی ورق گردانی کرتی رہی اور وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گی-- وہ جو -- وہ جو-- او خد-- ’’یہ مت سمجھو کہ میں fusses کر رہی ہوں۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ شدید نفرت!‘’ یا اللہ -- اسے تعجب ہو رہا تھا کہ اسے اب تک رونا کیوں نہ آیا۔ نہ معلوم ا��ے کیا ہو گیا تھا۔ میرا بے چاری بچی۔ ہنی مون ختم ہوتے ہی سائیکو انالسٹ سے اس کا علاج کرواؤں گا۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ ’’اچھا کم از کم تم تو سو جاؤ۔ بہت تھک گئی ہو گی۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا اور وہ مخالفت کے بغیر ضدی بچے کی طرح مسہری پر گر گئی۔ وہ ٹہلتا رہا۔ اس رات اس نے سگریٹوں کا سارا ڈبہ ختم کر دیا۔ تکیوں میں منہ چھپا کر اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے سنا جیسے کہیں بہت دور سے آواز آ رہی تھی۔ جم دریچے میں کھڑا کہہ رہا تھا: ’’اس کا انجام تم نے کیا سوچا ہے ؟‘‘ قانونی علاحدگی-- ا س نے اپنے آپ کو کہتے پایا۔ پھر وہ سو گئی۔ جیسے اس نے دن بھر روتے روتے گزارا-- اور بمباری یا زلزلے سے گری ہوئی عمارت کے ملبے سے نکلے ہوئے کسی زخم خوردہ انسان کی طرح وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگی-- بالوں کی ایک لٹ اس کی برف جیسی پیشانی پر آ گری تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جھک کر اس لٹ کو وہاں سے ہٹا دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی-- یہ اس کی بیوی تھی، رخشندہ-- خدایا-- اور وہ خود جم تھا-- جمال انور-- مائیکل اینجلو کا شاہکار-- او بلند و برتر خدا، کیا ہم سب پاگل ہیں۔ خواب گاہ کا تیز لیمپ رخشندہ پر اپنی کرنیں پھینکتا رہ-- اس نے سبز روشنی جلائے بغیر اپنے آپ کو صوفے پر ڈال دیا۔ پھر وہ چار دوست خاموشی سے زینے پر سے اتر کے اس کار کی سمت بڑھے جو گیٹ وے کے اندھیرے سائے میں کھڑی تھی۔ اس پاگل کر دینے والی موسیقی کی گونج گیلریوں ، اسٹالوں اور سمندری ہواؤں میں اب تک لرزاں تھی۔ مادام میگڈلین ریوبن جو فٹ لائٹ کی تیز کرنوں میں نہاتی ہوئی گا رہی تھی۔ اور کارل ریوبن جو پیانو پر بیٹھا تھا اور ہال جو الٹر افیشن ایبل لوگوں سے پٹا پڑا تھا-- اور -- انھوں نے سنا کہ کارل ریوبن اور مادام ریوبن اپنے آرکیسٹرا کے ساتھ جہاں جاتے ہیں شہرت اور عزت ان کے قدموں پر جھک جاتی ہے۔ شمال کے سارے بڑے بڑے فیشن ایبل شہروں میں ان کے کونسرٹ ہو چکے ہیں۔ ریڈیو میں ان کے پروگرام رکھے جاتے ہیں۔ اتحادی فوجوں کو محظوظ کرنے کے لیے ان کو خاص طور سے مدعو کیا جاتا ہے۔ مادام ریوبن، جو سیاہ یا نقرئی شام کے لباس میں چمکیلے پتھروں سے سجی ہوئی، خاموشی سے اپنے جیون ساتھی کے ہاتھ کا سہارا لے کر اسٹیج پر آتی ہے اور پھر ساری دنیا پاگل ہو جاتی ہے اس کے نغموں سے -- اور انھیں تیزاب کی سی تلخی اور تیزی کے ساتھ یاد آیا۔ کارل کہا کرتا تھا: میرے ساتھ چلو مگ تمھیں بلبلوں اور کوئلوں کی ملکہ بنا دوں گا۔ میگڈلین-- میگڈلین-- میری سینوریتا۔ گوا کی کالی راتیں تمھیں پکار کر واپس بلا رہی ہیں۔ راتوں کو تمھارے بالوں میں ستارے سجا کریں گے اور مہتاب کے مغنی کا گتار بجتا رہے گ-- تم-- مگ-- سرخ ہونٹوں والی چوہی-- تمھاری نیوریلجیا کی شکایت ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے گی۔ تم میری آنکھوں سے دیکھو گی، میرے کانوں سے سنو گی، میرے جادو سے رقص کرو گی اور ساری کائنات مدہوش ہو کر ہمارے ساتھ ناچنے لگے گی۔ بے وقوف لڑکی جوان چار سر پھرے ہندوستانی لڑکوں کے لیے کرافرڈ مارکیٹ سے مچھلی کے ڈبے خرید کر لاتی ہو اور ان کی چائے کی پیالیاں صاف کرتی ہو۔ رب یہودہ کی قسم اس بھورے بالوں والی گلہری میں ذرا بھی عقل نہیں ! پھر انھوں نے سنا اتحادی فوجوں کو محظوظ کرنے والی ایک پارٹی کے ہم راہ مشرقِ وسطیٰ جاتے ہوئے جہاز پر ایک حادثے کی وجہ سے مسٹر کارل ریوبن کا انتقال ہو گیا اور خوب صورت اور غمگین مادام ریوبن پارٹی سے علاحدہ ہو کر اپنے وطن واپس چلی گئیں۔ اور ایک نیلگوں صبح گوا کے ایک چھوٹے سے ہرے بھرے قصبے کے پرانے اور بھورے پتھروں والے کیتھیڈرل میں جب ماس ختم ہونے کے بعد فادر فرانسیسکو نے قربان گاہ کے دریچے کے سامنے کا پردہ برابر کیا تو ان کی پیشانی پر اور بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں ایک ملکوتی مسرت اور اطمینان کی روشنی چمک رہی تھی۔ کیونکہ ایک بھٹکی ہوئی روح آخر اپنے چرواہے کے پاس پہنچ چکی تھی-- ’’خداوندِ خدا کی رحمت ہو اس پر، وہ یسوع کی دلہن بن گئی--‘‘ دعا کے آخری الفاظ بھورے پتھروں والے ہال کے منجمد سناٹے میں ڈوب گئے اور فادر ڈائیگو آرگن بند کر کے سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے۔ باہر آسمان کے نیچے بہت سے ٹوٹے ہوئے نیلے پر ہوا میں تیرتے پھر رہے تھے۔ اور ایسی ہی ایک نیلگوں شام کے اندھیرے میں ، جب کہ تاج کی ایک گالا نائٹ کے اختتام پر گیٹ وے ، برساتی اور گیلریوں میں مجمع کم ہوتا جا رہا تھا، موٹریں اسٹارٹ ہو چکی تھیں اور اکّا دکّا لوگ سیڑھیوں اور سڑک کے کنارے سگریٹ جلانے اور اپنے دوستوں کو شب بخیر کہنے کے لیے رکے ہوئے تھے ان چار دوستوں نے اپنے پائپوں کی راکھ جھٹکی اور ان کی سرخ کار ڈھلوان پر بہنے لگی۔ رات گرم تھی اور ورسوا اور جوہو کی خاموش سڑکیں ان کا انتظار کر رہی تھیں ٭٭٭ Read the full article
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years ago
Photo
Tumblr media
بھارتی ایئر چیف سے دوران کانفرنس ایسا کیا سوال پوچھا گیا جس کے جواب میں وہ کونسی رام کہانیاں سنانا شروع ہو گئے ‎ نئی دہلی(این این آئی) بھارتی فضائیہ کے سربراہ بی ایس دھانوئے پریس کانفرنس کے دوران بالاکوٹ حملے میں ہلاکتوں کے سوالات پر کوئی ٹھوس جواب نہ دے سکے۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارتی ایئر چیف کی پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے بالاکوٹ حملے میں ہلاکتوں سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی جس پر وہ انہیں مطمئن نہ کرسکے۔فضائیہ چیف بی ایس دھنوا نے کہا کہ ہم ہدف کو نشانہ بناتے ہیں، ہلاکتوں کی تعداد نہیں گنتے، ہلاکتوں کی تعداد بتانا حکومت کا کام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی فضائیہ حملے میں ہلاکتوں کی وضاحت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے رہا کردہ پائلٹ ابھی نندن کے مستقبل سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بھارتی ایئر چیف نے کہا کہ ابھی نندن دوبارہ طیارہ اڑا سکتے ہیں یا نہیں اس کا دار و مدار ان کی میڈیکل فٹنس پر ہے۔پریس کانفرنس کے دوران جب صحافیوں نے لڑاکا طیارے مگ 21 بائسن کی صلاحیت سے متعلق سوالات کیے تو بھارتی فضائیہ چیف مگ 21 طیارے کا دفاع کرتے دکھائی دیے۔بی ایس دھانوئے نے کہا کہ مگ 21 بائسن قابل صلاحیت لڑاکا طیارہ ہے جسے اپ گریڈ کیا گیا ہے جس میں عمدہ راڈار سسٹم، فضا سے فضا میں ہدف کے نشانہ بنانے کی صلاحیت سمیت جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ The post بھارتی ایئر چیف سے دوران کانفرنس ایسا کیا سوال پوچھا گیا جس کے جواب میں وہ کونسی رام کہانیاں سنانا شروع ہو گئے ‎ appeared first on Zeropoint.
0 notes